کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 593
الْأَرْضِ فَأَصْبَحَ هَشِيمًا تَذْرُوهُ الرِّيَاحُ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقْتَدِرًا ﴿٤٥﴾الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا ﴾ (الکہف:۴۵-۴۶)
’’اور ان کے لیے دنیا کی زندگی کی مثال بیان کر، جیسے پانی، جسے ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے ساتھ زمین کی نباتات خوب مل جل گئی، پھر وہ چورا بن گئی، جسے ہوائیں اڑائے پھرتی ہیں اور اللہ ہمیشہ سے ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں اورباقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے ہاں ثواب میں بہتر اور امید کی رو سے زیادہ اچھی ہیں ۔‘‘
آپ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگہداشت میں تربیت پائی تھی، جو دنیا اور اس کی حقیقت کے سب سے زیادہ جانکار تھے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
((لَوْ کَانتِ الدُّنْیَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللّٰہِ جَنَاحَ بِعُوضَۃٍ مَا سَقَی کَافِرًا مِنْہَا شُرْبَۃَ مَائٍ۔))[1]
’’اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی حیثیت مکھی کے پَر کے برابر ہوتی تو کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی نہ دیتا۔‘‘
اور فرمایا:
(( اَلدُّنْیَا سِجْنٌ لِلْمُؤْمِنِ وَجَنَّۃٌ لِلْکَافِرِ۔)) [2]
’’دنیا مومن کا قید خانہ ہے اور کافر کی جنت ہے۔‘‘
اللہ کی قسم! میں تمھارے مال سے کچھ نہیں لیتا:
امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے زہد و ورع کی ایک مثال یہ واقعہ ہے جسے ہارون بن عنترہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: میں خورنق[3] میں علی بن ابی طالب کے پاس گیا، وہ ایک پرانی چادر اوڑھے ہوئے سردی سے کانپ رہے تھے، میں نے کہا: امیرالمومنین! اللہ نے آپ، اورآپ کے افراد خاندان کے لیے اس مال میں حصہ رکھا ہے اور آپ سردی سے کانپ رہے ہیں ؟ فرمایا: میں تمھارے مال سے کچھ نہیں لیتا، میری یہی چادر ہے جسں کو میں اپنے گھر سے لے کر نکلا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ یہی چادر ہے جس کو میں مدینے سے لے کر نکلا تھا۔[4]
خشوع قلب اور اقتدائے مومن:
عمرو بن قیس کا بیان ہے کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا گیا، آپ پیوند لگی ہوئی قمیص کیوں پہنتے ہیں ؟ آپ نے جواب دیا: اس سے دل میں خدا ترسی رہتی ہے اور مومن اس کی پیروی کرتا ہے۔[5]
[1] سنن الترمذی حدیث نمبر (۴۱۱۰) صحیح غریب۔
[2] صحیح مسلم حدیث نمبر (۲۸۵۶)۔
[3] کوفہ میں ایک جگہ کا نام ہے۔
[4] حلیۃ الأولیا (۱؍۸۲) صفۃ الصفوۃ (۱؍۳۱۶)۔
[5] تاریخ الإسلام ؍ عہد الخلفاء الراشدین ؍ الذہبی ص (۶۴۷)۔