کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 592
اور فرمایا: ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جب جبریل علیہ السلام کسی حلال یا حرام، کسی کتاب یا سنت اور امریا نہی کی وحی لے کر آتے تو جب تک میں اسے اسی روز معلوم نہ کرلیتا اور یہ کہ کس کے بارے میں یہ وحی نازل ہوئی ہے، تب تک نہ مجھے اونگھ آتی تھی اور نہ ہی نیند آتی۔‘‘[1] ٭ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ان چند مسلمانوں میں سے تھے جو شروع اسلام میں لکھنا جانتے تھے، مزید برآں آپ کاتب وحی تھے، پڑھنے اور لکھنے میں آپ کی اسی مہارت نے آپ کو علوم شرعیہ میں غوطہ زنی کرنے کا اہل بنا دیا تھا، آپ کو نگارش کا یہ انداز پسند تھا کہ عبارتیں بالکل واضح ہوں ، سطروں میں فاصلہ ہو، حروف میں قربت ہو، چنانچہ ابوعثمان عمرو بن بحر بن جاحظ کا بیان ہے کہ امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’خط (تحریر) علامت ہے، جتنا ہی واضح ہوگا خوب صورت ہوگا۔‘‘[2] ٭ علوم و ادب کے بحر بیکراں سے جواہر پاروں کو چننے کے عادی تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’علوم، احاطۂ حفظ سے بالاتر ہیں ، اس لیے ہر علم کے محاسن کو حفظ کر لیا کرو۔‘‘[3] آپ علم کے اتنے اونچے مقام پر پہنچ گئے تھے کہ عراق میں خود ہی لوگوں سے کہتے تھے: مجھ سے پوچھو۔ چنانچہ سعید بن المسیب کا بیان ہے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی نہیں کہتا تھا کہ مجھ سے پوچھو۔[4] صحابہ ہوں یا تابعین سب کو آپ کے علم پر اعتماد تھا۔ چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ اگر ہمیں ثقہ راوی کے ذریعے سے کوئی مسئلہ علی رضی اللہ عنہ سے مل جاتا تو ہم اس کے برابر کسی کو نہ سمجھتے۔[5] (مزید تفصیل ملاحظہ ہو، سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ، ص: ۳۳۷، از ڈاکٹر محمد الصلابی) امیر المومنین سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا زہد و ورع قرآن کی زیرسایہ، نبی کی زیرتربیت، صحابہ کی مصاحبت اور دنیوی زندگی کے شب و روز پر غور و تدبر کرتے کرتے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیا کہ دنیا صرف امتحان و آزمائش کا گھر ہے۔ آپ نے قرآنی تربیت پائی تھی، اس کی جو آیات دنیا، اس کی حقارت، بے ثباتی، بے وفائی اور فنا پر دلالت کرتی تھیں اور آخرت کی طرف رغبت دلاتی تھیں ، اس کی شرف و عظمت اور دوام و ثبات کو واضح کرتی تھیں ، آپ نے ان کا ہمہ جہتی مطالعہ کیا، انھیں میں سے ایک آیت یہ ہے: ﴿ وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ
[1] الجامع لأخلاق الراوی (۱؍۲۶۲)۔ [2] ایضًا۔ [3] تاریخ الیعقوبی (۲؍۵)۔ [4] الاستیعاب ص (۱۱۰۳)۔ [5] الاستیعاب ص (۱۱۰۴)۔