کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 591
کثرت سے عام کیا اور بعد میں جب افتراق شروع ہوا تو اہل سنت و جماعت نے ضرورت محسوس کی کہ آپ کے فضائل کو خوب عام کیا جائے۔ اسی وجہ سے ان فضائل کے ناقلین بھی زیادہ ہوئے۔ ورنہ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ خلفائے اربعہ میں سے ہر ایک کو جو فضائل ہیں اگر انھیں میزان عدل پر تولا جائے تو اہل سنت و جماعت کے قول سے ہٹ کر کوئی بات سامنے ہرگز نہ آئے گی۔‘‘[1] حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’آپ کی ایک بڑی فضیلت ہے کہ عشرۂ مبشرہ میں باعتبار حسب و نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریبی ہیں ۔‘‘[2] مآثر و اوصاف: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سراپا ربانی قیادت اور کتاب الٰہی، سنت نبوی نیز اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے جاں نثاری کے پیکر تھے، یہاں آپ کے چند مآثر کو اجمالاً اور چند کو تفصیلاً بیان کیا جارہا ہے۔ آپ کے اہم اوصاف یہ ہیں کہ آپ عقیدہ، علم شریعت، توکل علی اللہ، قدوہ، صدق و صفا، کمال و صلاحیت، شجاعت، مروت اور زہد و ورع میں کامل تھے، جاں نثاری محبوب تھی، اپنے معاونین کے انتخاب کا حسین ملکہ تھا، تواضع، بردباری اور صبر کی زندہ تصویر تھے، عالی ہمت، پختہ ارادہ کے مالک اور جو ٹھان لیتے کر گزرتے، عادل تھے، تعلیم و تربیت اور قائدانہ صلاحیت پیدا کرنے کے مالک تھے، ان کے علاوہ بھی بے شمار خوبیاں تھیں ان میں سے بعض اوصاف کو ان کی مکی زندگی سے جب کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور بعض مدنی زندگی سے جب کہ غزوات نبوی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر شریک تھے، نیز بعض اوصاف کو آپ کی معاشرتی زندگی سے اخذ کیا گیا ہے اور آپ کی بعض دیگر خوبیاں اس وقت منظر عام پر آئیں جب آپ نے اسلامی حکومت کی قیادت سنبھالی اور امیر المومنین بنے۔ آپ کے چند اہم اوصاف کا یہاں خاص طور پر ذکر کیا جارہا ہے۔ دینی علم و بصیرت: امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ بڑے ممتاز علماء صحابہ میں سے ایک تھے، حصول علم کے لیے آپ کی کوشش اور تڑپ منفرد تھی، مذاکرے کے انتہائی شوقین تھے، اس دور میں معلومات محفوظ کرنے کے جو ذرائع تھے خواہ تحریر ہو یا حافظہ پر اعتماد، انھیں استعمال کرتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہتے، حفظ قرآن کے لیے اپنی محنت و لگن کے بارے میں فرماتے ہیں : ’’میں نے قسم کھا لی تھی کہ جب تک قرآن حفظ نہ کرلوں گا نماز کے علاوہ اپنے جسم پر چادر نہ ڈالوں گا۔‘‘[3]
[1] یعنی خلافت میں ترتیب کے اعتبار سے ان کے فضائل کے بھی مراتب ہیں ۔ فتح الباری (۷؍۷۱) [2] البدایۃ والنہایۃ (۱۱؍۲۹)۔ [3] الطبقات (۲؍۳۳۸)۔