کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 590
اسی طرح علما سلف اس بات پر متفق ہیں کہ ’’سلام‘‘ کا کلمہ اگرچہ تحیۃ بین المسلمین کے لیے مستعمل ہوتاہے، لیکن اس کا خصوصی استعمال انبیاء کرام کے لیے ہوگا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ ﴾ (الصافات:۱۸۱)… ’’پیغمبروں پر سلام ہے۔‘‘
یحییٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
﴿ وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ﴾ (مریم:۱۵)… ’’اس پر سلام ہے جس دن وہ پیدا ہوا۔‘‘
چونکہ علی رضی اللہ عنہ کے حق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد وارد ہے کہ:
((أَلَا تَرْضٰی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْنَ ِمنْ مُّوْسٰی۔))[1]
’’کیا تمھیں یہ پسند نہیں کہ تمھیں مجھ سے وہی منزلت حاصل ہوجو ہارون کو موسیٰ سے تھی۔‘‘
اس لیے متعصب روافض امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے حق میں علیہ السلام یا کرم اللہ وجہہ استعمال کرنے لگے۔ ہم بھی اس بات سے متفق ہیں اور مانتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ اس کے اہل ہیں ، لیکن ہمارے اور روافض میں فرق یہ ہے کہ اس منزلت میں ہم سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تمام صحابہ کرام کو مشترک مانتے ہیں ۔[2]
بہت سارے ناقلین کتب کی عبارتوں میں حتی کہ بعض علماء اہل سنت کے نزدیک یہ چیز دیکھی گئی ہے کہ وہ دیگر صحابہ کو چھوڑ کر صرف علی رضی اللہ عنہ ہی کے لیے علیہ السلام یا کرم اللہ وجہہ لکھتے ہیں ، یقینا اس کا معنی بالکل درست ہے لیکن مناسب یہ ہے کہ تمام صحابہ کو اس درجہ میں برابر رکھا جائے۔[3]
(۲)… فضائل، مآثر و اوصاف اور نظام حکومت کے اصول و قواعد
امام احمد، اسماعیل القاضی، النسائی اور ابوعلی نیسابوری رحمہم اللہ کا قول ہے کہ فضائل علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں جید اسانید کے ذریعے سے جس قدر روایات وارد ہیں کسی صحابی کے بارے میں اتنی نہیں ہیں ۔[4]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ سب سے آخر میں آئے، یعنی خلفائے راشدین میں آخری خلیفہ ہوئے، آپ کے زمانے میں اختلاف رونما ہوا اور بغاوت کرنے والوں نے بغاوت کیا، پس یہ تمام باتیں سبب بن گئیں کہ فضائل علی کا علم رکھنے والے صحابہ نے مخالفین کی تردید میں ان فضائل و مناقب کو
[1] صحیح البخاری حدیث نمبر (۴۴۱۶)۔
[2] فتاوی فی التوحید ؍ عبداللہ بن جبرین ص (۳۷)۔
[3] الناہیۃ عن طعن امیر المومنین معاویہ ص (۲۶) دیکھئے: حاشیہ و تعلیق از أحمد التویجری۔
انبیاء، صحابہ اور صالحین امت کے درمیان امتیاز اور فرق مراتب کا تقاضا ہے کہ انبیاء کے لیے علیہ السلام ، صحابہ کے لیے رضی اللہ عنہ اور صالحین کے لیے رحمہ اللہ استعمال کیا جائے۔ (مترجم)
[4] فتح الباری (۷؍۷۱)۔