کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 59
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احد کی گھاٹی میں چلے گئے تاکہ اپنی مادی اور معنوی قوت کو دوبارہ بحال کر سکیں ۔[1] صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جب احد کا تذکرہ کرتے تو فرماتے: ’’یہ جنگ کل کی کل طلحہ ( رضی اللہ عنہ ) کے لیے تھی۔‘‘ (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ کا اصل کارنامہ انھی نے انجام دیا تھا) پھر بیان کرتے: احد کے دن میں پہلا شخص تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پلٹ کر آیا، میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دفاع کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں قتال کر رہا ہے۔ میں نے کہا: تم طلحہ ہی ہو گے، مجھ سے تو یہ زریں موقع فوت ہو گیا۔ میرے اور مشرکین کے مابین ایک شخص تھا جس کو پہچان نہ سکا اور میں اس شخص کی بہ نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ قریب تھا، وہ اچھلتے ہوئے چل رہا تھا۔ دیکھتا ہوں تو وہ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ تھے، پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے آپ کا رباعی دانت ٹوٹ گیا تھا۔ چہرۂ انور زخمی ہو چکا تھا۔ خود کی دو کڑیاں دونوں رخسار میں آنکھ کے نیچے دھنس گئی تھیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: اپنے ساتھی یعنی طلحہ کی خبر لو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم سے خون بہ رہا تھا۔ ہم آپ کی بات کی طرف توجہ نہ دے سکے اور میں نے آپ کے چہرۂ انور سے خود کی کڑیاں نکالنا چاہیں تو ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں مجھے نکالنے دیجیے۔ میں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔ ایک طرف یہ فکر دامن گیر تھی کہ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچے گی، لہٰذا انھوں نے اپنے منہ سے آہستہ آہستہ نکالنا شروع کیں ، بالآخر ایک کڑی اپنے منہ سے کھینچ کر نکال دی، لیکن اس کوشش میں ان کا سامنے کا ایک نچلا دانت گر گیا۔ اب دوسری میں نے کھینچنی چاہی تو ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے پھر کہا: ابوبکر! اللہ کا و اسطہ دیتا ہوں ، مجھے کھینچنے دیجیے۔ اس کے بعد دوسری آہستہ آہستہ کھینچی لیکن ان کا سامنے کا دوسرا نچلا دانت گر گیا۔ یقینا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ حسین چہرہ والے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرہم پٹی سے فارغ ہو کر ہم طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے جو ایک گڑھے میں گرے ہوئے تھے، دیکھا تو ان کے جسم پر ستر (۷۰) سے زائد نیزے، تیر اور تلوار کے زخم لگے تھے، آپ کی انگلی کٹ گئی تھی، ہم نے ان کی مرہم پٹی کی۔[2] اس غزوہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مقام ومرتبہ ابوسفیان کے اس موقف سے بھی واضح ہوتا ہے جبکہ اس نے پکار پکار کر سوال کرنا شروع کیا: کیا تم میں محمد ہیں ؟ کیا تم میں محمد ہیں ؟ کیا تم میں محمد ہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دینے سے صحابہ کو منع کر دیا۔ پھر اس نے کہا: کیا تم میں ابن ابی قحافہ ہیں ؟ کیا تم میں ابن ابی قحافہ ہیں ؟ کیا تم میں ابن ابی قحافہ ہیں ؟
[1] مواقف الصدیق مع النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم فی المدینۃ، د: عاطف لماضہ: ۲۷۔ [2] منحۃ المعبود : ۲؍۱۹ نقلًا عن تاریخ الدعوۃ الاسلامیۃ ، ص: ۱۳۰۔