کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 589
تذکرۂ علی کے وقت ’’رضی اللہ عنہ‘‘ یا ’’کرم اللہ وجہہ‘‘ یا ’’علیہ السلام‘‘ اصل یہ ہے کہ جب صحابۂ کرام میں سے کسی کا بھی ذکر ہو تو ان کے لیے رضی اللہ عنہ کہا جائے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ ﴾ (التوبۃ:۱۰۰) ’’اور مہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے سب سے پہلے لوگ اور وہ لوگ جو نیکی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوگیا۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ لَّقَدْ رَضِيَ اللَّـهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ﴾ (الفتح:۱۸) ’’بلاشبہ یقینا اللہ ایمان والوں سے راضی ہوگیا، جب وہ اس درخت کے نیچے تجھ سے بیعت کر رہے تھے۔‘‘ چنانچہ انھیں آیات کے پیش نظر اہل سنت نے یہ اصطلاح ایجاد کی کہ جب کسی صحابی کا ذکر آئے، یا اس سے کوئی حدیث روایت کی جائے تو اس کے لیے رضی اللہ عنہ کہا جائے۔ مثلاً روایت یوں بیان ہو: ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔‘‘ میری معلومات کی حد تک کسی صحابہ کے لیے ’’السلام‘‘ کالفظ شریعت میں نہیں مستعمل ہے۔ باوجودیہ کہ سلام مسلمانوں کا باہمی تحیہ ہے، جیسے کہ اللہ کا ارشاد ہے: ﴿ فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ اللَّـهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً﴾ (النور:۶۱) ’’پھر جب تم کسی طرح کے گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں پر سلام کہو، زندہ سلامت رہنے کی دعاجو اللہ کی طرف سے مقرر کی ہوئی بابرکت، پاکیزہ ہے۔‘‘ اسی بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ صحابہ کے حق میں ’’ علیہ السلام ‘‘ کے بالمقابل ’’ رضی اللہ عنہ ‘‘ کہنا افضل و برتر ہے۔ اللہ نے فرمایا: ﴿ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّـهِ أَكْبَرُ﴾ (التوبۃ:۷۲) ’’اور اللہ کی طرف سے تھوڑی سی خوشنودی سب سے بڑی ہے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ جنت والوں سے کہے گا: ((اُحِلُّ عَلَیْکُمْ رِضْوَانِیْ فـلَا أَسْخُطْ عَلَیْکُمْ أَبَدًا۔))[1] ’’میں اپنی رضا مندی کو تم پر حلال کردیتا ہوں ، میں تم پر کبھی نہ ناراض ہوں گا۔‘‘
[1] مشکوٰۃ المصابیح ؍ التبریزی (۳؍۸۸)۔ک