کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 588
اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ، بجز اس صورت کے کہ کسی پر شرعی حق واجب ہو، ناحق کسی مسلمان کو تکلیف دینا جائز نہیں ہے، عوام کے معاملات پر خاص توجہ دینے میں جلدی کرو، موت تمھیں چیلنج دے چکی ہے، لوگ تمھارے سامنے ہیں اور تمھارے پیچھے قیامت ہے جو آگے بڑھا رہی ہے۔ اپنے آپ کو ہلکا پھلکارکھو تاکہ منزل تک پہنچ سکو، آخرت کی زندگی تو لوگوں کی منتظر ہے۔ اے اللہ کے بندو! اللہ کے بندوں اور اس کی زمین پر بسنے والی تمام مخلوق کے بارے میں اللہ سے ڈرو، تم سے زمین کے تمام حصوں اور مویشوں کے بارے میں باز پرس ہوگی۔ اللہ کی اطاعت کرو، اس کی نافرمانی نہ کرو، خیر کو دیکھو تو اسے لے لو، اور برائی کو دیکھو تو اسے چھوڑ دو:
﴿ وَاذْكُرُوا إِذْ أَنتُمْ قَلِيلٌ مُّسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْضِ ﴾ (الانفال:۲۶)
’’اور یاد کرو جب تم بہت تھوڑے تھے، زمین میں نہایت کمزور تھے۔‘‘ [1]
چونکہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیعت خلافت ایسے بے رحم فتنے کے بعد منعقدہوئی تھی جس نے آپ کے پیشرو خلیفہ (عثمان رضی اللہ عنہ ) کو نہ بخشا تھا، اس لیے آپ نے سب سے پہلے مسلمانوں کو خیر کی دعوت دی، برائی کو پھینک دینے کا حکم دیا اور بتایا کہ مسلمانوں کے خون کی حرمت تمام محرمات پر بھاری ہے، اسے کسی حال میں تکلیف دینا جائز نہیں ، پھر انھیں موت اور آخرت یاد دلائی، تقویٰ اطاعت اور عمل صالح پر ابھارا۔[2] آپ کا پورا خطبہ عقیدہ، عبادت، اخلاق اور دیگر مقاصد شریعت پر زور اور اہتمام کے اردگرد گھومتا رہا، آپ جس نکتہ کو لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہتے تھے اسے مختصر الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے کہنے کا مقصد تھا: اے لوگو! تم اسی عہد کی طرف لوٹ چلو جس پر تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے زمانے میں قائم تھے۔[3]
آپ نے بڑی حکمت سے اور بلیغ انداز میں لوگوں کے سامنے اس منہج کی طرف اشارہ کردیا جس کا انھیں جدید دور خلافت میں سامنا کرنا پڑے گا۔ آپ نے فرمایا: جب تم خیر دیکھو تو اسے لے لو، اور شر دیکھو تو اسے چھوڑ دو۔ آپ نے اپنا خطبہ ایسی آیت پر ختم کیا جسے انھیں اسی وقت یاد دلانے کی سخت ضرورت تھی، تاکہ وہ اسلام کے پہلے اور مابعد کی دونوں زندگی کاموازنہ کریں ، کہ کس قدر وہ قلت میں تھے، لاچار تھے، کوئی حیثیت نہ تھی، بجھے بجھے سے رہتے تھے، بے بسی کا عالم یہ تھا کہ جیسے کسی ہاتھ میں گوشت کا ٹکڑا ہو اور چڑیا اسے اچک لے جائے لیکن پھر حالات بدلے، مضبوطی ملی، کشادگی ہوئی، امن و سلامتی کا بول بالا ہوا، خوش حالی کا دور آیا، اور اللہ نے نعمتوں کی بارش نازل کردی، پھر مسلمانوں کی سربلندی کے ڈنکے بجنے لگے، ہر جگہ ان کے پرچم لہرانے لگے، اور پوری دنیا ان کے سامنے سرنگوں ہوگئی۔[4]
[1] تاریخ طبری (۵؍۴۵۸، ۴۵۹)۔
[2] الأدب الاسلامی ؍ تالیف معروف ص (۵۷)۔
[3] الخلفاء الراشدون ؍ النجار ص (۳۷۸)۔
[4] المرتضٰی ؍ الندوی (۱۴۰، ۱۴۱) ۔