کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 586
چھوڑو، جانے دو، پھر علی رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے اس وقت تک عثمان رضی اللہ عنہ شہید کیے جا چکے تھے، پھر آپ لوٹ کراپنے گھر آئے اور دروازہ بند کرلیا، آپ کے پیچھے اور بہت سے لوگ آگئے، انھوں نے دروازہ کھٹکھٹایا، آپ نے دروازہ کھول دیا، سب لوگ اندر گئے اور کہنے لگے وہ تو شہید ہی کردیے گئے اب مسلمانوں کے لیے دوسرے خلیفہ کی تعین
ضروری ہے اور اے علی! ہمارے علم میں اب آپ کے علاوہ کوئی دوسرا اس کا مستحق اور اس کے لائق نہیں ہے۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو جواب دیا: مجھے امارت کے لیے مت منتخب کرو، میں تمھارے لیے وزیر ہوں ، یہ امیر ہونے سے میرے لیے بہتر ہے۔ لیکن ان لوگوں نے پھر اصرار کیا، اور کہا: نہیں ، ہم آپ سے زیادہ کسی کو اس کا مستحق ہی نہیں جانتے، آپ جب لاچار ہوگئے، تو کہا: ٹھیک ہے اگر آپ لوگ میرے لیے ہی اصرار کررہے ہو تو میری بیعت خفیہ نہ ہوگی، اس لیے سب لوگ مسجد میں تشریف لے چلو، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہاں لوگوں نے آپ سے بیعت خلافت کی۔
خلافت علی رضی اللہ عنہ پر امت کا اجماع:
سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مہاجرین و انصار کے ہاں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے افضل کوئی نہ تھا اس لیے کہ آپ شروع شروع میں اسلام لانے والوں میں سے تھے، علم میں کامل تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ترین نسبی رشتہ دار تھے، بہادر و خوددار تھے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے تھے، خوبیوں میں فائق، سبقت إلی الخیر میں افضل، درجات میں بلند، عالی نسب اور سیرت و کردار میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آئینہ دار تھے، تو سب کی نظریں خلافت کے لیے انھیں کی طرف گئیں اور سب نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی، پھر ان کے علاوہ جو صحابۂ کرام مدینہ میں بستے تھے، انھوں نے بھی بالاتفاق آپ کے ہاتھوں پر بیعت خلافت کی۔ اسی اجماع صحابہ کے پیش نظر اہل سنت و جماعت کا بھی اجماع ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد آپ ہی خلافت کے مستحق تھے اور شرعی خلیفہ ہونے کی حیثیت سے آپ کی اطاعت تمام مسلمانوں پر واجب ہوگئی اور ان کی بغاوت کرنا یا انھیں مخالفت و تنقید کا نشانہ بنانا حرام قرار پایا۔
خلافتِ علی رضی اللہ عنہ پر اجماع امت کے ناقلین:
ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’امام احمد ابن حنبل نے اپنی سند سے عبدالرزاق سے، انھوں نے محمد بن راشد سے اور انھوں نے عوف سے روایت کیا ہے کہ ان کا بیان ہے کہ میں حسن کی مجلس میں بیٹھا تھا، میں نے دیکھا کہ ایک آدمی ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ پر معترض تھا کہ انھوں نے علی رضی اللہ عنہ کا اتباع کیوں کیا؟ حسن رضی اللہ عنہ یہ سن کر غصہ ہوگئے، اور کہا: سبحان اللہ! جب امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ شہید کردیے گئے اور وہاں موجود لوگوں نے اپنے سب سے بہتر آدمی پر اتفاق کرکے اس کی خلافت پر بیعت کرلی تو کیا برا کیا؟ کیا علی رضی اللہ عنہ کی اتباع کی وجہ سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ ملامت کیے جائیں گے؟‘‘[1]
[1] منہاج القاصدین فی فضل الخلفاء الراشدین ص (۷۷،۷۸) بحوالہ: عقیدۃ أہل السنۃ فی الصحابۃ(۲؍۶۸۹)۔