کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 585
تیسرا باب :
بیعت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اہم اوصاف حمیدہ اورمعاشرتی زندگی
(۱)… بیعت سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ
بیعت کی نوعیت:
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیعت خلافت انتخاب کے ذریعے سے میں آئی، اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب مختلف قبائل اور شہروں وخطوں سے آئے ہوئے بلوائیوں اور اسلامی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے والے باغیوں نے، جن کا ماضی میں کوئی اچھا کردار نہیں تھا اور نہ ہی دین میں کوئی اچھے نقوش تھے، انھوں نے خلیفہ راشد عثمان رضی اللہ عنہ کو بہتان و سرکشی اور ظلم ڈھاتے ہوئے جمعہ کے دن ۱۸ ذی الحجہ ۲۵ھ کو شہید کردیا۔[1] تو مدینہ میں اس وقت جتنے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے سب علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پر بیعت خلافت کے لیے تیار ہوگئے، اس لیے کہ اس وقت علی الاطلاق آپ سے بہتر اور افضل کوئی نہ تھا جو اس منصب کو سنبھالتا، ان صحابہ میں سے کسی نے اپنی امامت و خلافت کی دعوی نہیں پیش کیا، حتی کہ خود علی رضی اللہ عنہ اس کے حریص نہ تھے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب مدینہ کے باقی ماندہ اصحاب رسول کا ان پر شدید دباؤ ہوا اور آپ کو بھی احساس ہوا کہ اگر میں بھی اس ذمہ داری سے راہ فرار اختیار کرتا ہوں تو مزید فتنے کا خوف ہے۔ تبھی آپ اس منصب کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوئے۔ لیکن حیرت ہے کہ پھر بھی آپ معرکۂ جمل و صفین کی شکل میں رونما ہونے والے فتنوں کے بعد بعض جاہلوں کے نقد و اعتراض سے نہ بچ سکے، حالانکہ ان فتنوں کی آگ ابن سبا اور اس کے جھانسے میں آنے والے بد بخت دشمنان اسلام نے لگائی تھی۔ اس کے پیروکار فاسق تھے اور حق وہدایت کے راستے سے منحرف تھے۔
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ منصب خلاف کے لیے کس طرح منتخب ہوئے؟ اس کی تفصیل بعض علماء نے اس طرح بیان فرمائی ہے: [2] امام ابو بکر الخلال اپنی سند سے محمد بن الحنفیہ سے روایت کرتے ہیں کہ ان کا بیان ہے کہ جب سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ دشمنوں کے نرغہ میں تھے اس وقت میں علی رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، ایک آدمی آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا: یقین کیجیے! امیرالمومنین ابھی قتل کردیے جائیں گے، علی رضی اللہ عنہ فوراً اٹھ کھڑے ہوئے، لیکن میں نے ان کی کمر سے پکڑ کر انھیں روکنا چاہا کہ کہیں آپ بھی بلوائیوں کی زد میں نہ آجائیں ، مگر آپ ناراض ہوگئے اور کہا: تمھاری ماں نہ رہے مجھے
[1] الطبقات الکبریٰ ؍ ابن سعد(۳؍۳۱)۔
[2] عقیدہ وأھل السنۃ فی الصحابۃ الکرام (۲؍۶۷۷)۔