کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 584
دفاع میں زخمی تھے۔[1] حسین کے سینے پر گھونسہ مارا، ابن زبیر، اور ابن طلحہ کو سخت سست کہا اور سخت غصہ کی حالت میں یہ کہتے ہوئے اپنے گھر گئے: قیامت تک تم پر لعنت ہو، اے اللہ! میں عثمان کے خون سے تیری بارگاہ میں برأت چاہتا ہوں ، نہ میں نے انھیں قتل کیا ہے، نہ کسی کو ان کے قتل پر ابھارا ہے۔ [2]
یہ تھا علی رضی اللہ عنہ کا موقف، جو محض خیرخواہی، مشورہ اور سمع وطاعت سے لبریز تھا، دوران فتنہ عثمان رضی اللہ عنہ کے پہلو بہ پہلو سخت دفاعی موقف، انھیں کبھی برے ونامناسب کلمات سے یاد نہ کیا، ہمہ وقت اس اصلاح کی کوشش میں رہے کہ خلیفہ اور باغیوں کے درمیان سمع وطاعت کا جو پردہ چاک ہوگیا ہے اسے جوڑدیں ، لیکن معاملہ آپ کی طاقت اور ارادہ سے باہر تھا، اللہ کا ارادہ اس کی مرضی یہ تھی کہ عثمان رضی اللہ عنہ منصب شہادت ہی سے سرفراز ہوں ۔[3]
[1] ابن أبی عاصم ، الآحادو المثانی (۱؍۱۲۵) بحوالہ خلافت علی ؍ عبدالحمید علی ص (۸۷)۔
[2] مصنف ابن أبی شیبۃ (۱۵؍۲۰۹) اس کی سند صحیح ہے۔
[3] خلافۃ علی بن أبی طالب ؍ عبدالحمید علی ص (۸۷)۔