کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 583
کے سامنے حقیقت عیاں ہونے لگی اور سمجھ گئے کہ ہم سے غلط فہمی ہوئی اور یہ خدشہ ہونے لگا کہ کہیں ناخوشگوار حادثہ نہ پیش آجائے، کیونکہ انھیں دور نزدیک سے یہ اطلاع ہوچکی تھی کہ یہ بغاوت کرنے والے لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کردیناچاہتے ہیں ، تو انھوں نے امیرالمومنین عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو ہم ان باغیوں کا مقابلہ کریں اور اس شورش کو مدینہ سے باہرنکال دیں ، لیکن آپ نے اس سے انکار کردیا، تاکہ کہیں خون ریزی کا سبب آپ نہ بن جائیں ۔[1] تاہم بعض ممتاز وبرزگ صحابہ نے اپنے اپنے لڑکوں کو عثمان رضی اللہ عنہ سے پوچھے بغیر ان کی دفاع کے لیے بھیج دیا، انھیں میں سے حسن بن علی اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بھی تھے، جیسا کہ بعض روایات میں آتا ہے کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما بلوائیوں کے حملہ کے دن زخم خوردہ حالت میں اٹھا کر لائے گئے۔[2] اور ان کے علاوہ، عبداللہ بن زبیر، محمد بن حاطب اور مروان بن حکم بھی زخمی ہوگئے، اسی طرح ان لوگوں کے ساتھ حسین بن علی اور ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے۔[3] ایسے نازک ترین موقع پر علی رضی اللہ عنہ نے سب سے زیادہ دفاع کیا، اس کے گواہ مروان بن حکم ہیں ،[4] جو اس دلدوز اور درد ناک آزمائش کے موقع پر عثمان رضی اللہ عنہ سے سب سے قریب تھے۔ ابن عساکر نے جابر بن عبداللہ سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے کہاکہ علی رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ میرے پاس پانچ سو زرہ پوش افراد ہیں ، مجھے اجازت دیجئے کہ میں بلوائیوں سے آپ کی حفاظت کروں ، کیونکہ آپ نے کوئی ایسا کام نہیں کیا ہے جس سے آپ کا خون حلال ہوجائے، عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اللہ تمھیں بہترین بدلہ عطاکرے، میں یہ نہیں پسند کرتا کہ میری وجہ سے خون ریزی ہو۔[5]
متعدد روایات سے معلوم ہوتاہے کہ علی رضی اللہ عنہ محاصرہ کے دوران عثمان رضی اللہ عنہ کے پہلوبہ پہلو دفاع کررہے تھے، انھیں میں سے ایک روایت یہ ہے کہ جب بلوائیوں نے عثمان رضی اللہ عنہ پر سے پانی بند کردیا اور آپ کے اہل وعیال پیاس کی شدت سے مرجانے کے قریب تھے تو علی رضی اللہ عنہ ان کے پاس تین مشکیزے بھر کر پانی بھیجا، لیکن وہ آپ تک بآسانی نہ پہنچا، بلکہ اس کے لیے بنو ہاشم اور بنو اُمیہ کے کئی غلاموں کو زخمی ہونا پڑا۔ [6]
اس طرح بلوائیوں کی منظم شازش یکے بعد دیگرے تیزی سے انجام پاتی رہی، اور حادثات ہوتے رہے۔ بلوائیوں نے عثمان رضی اللہ عنہ پر دھاوا بول دیا اور آپ کو شہید کردیا۔ جب یہ خبر صحابہ کرام تک پہنچی تو ان میں سے اکثر لوگ مسجد میں تھے، ان کی عقلیں اڑ گئیں ، علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹوں اور اپنے برادران کی اولادوں سے کہا: گھر کے دروازے پر تمھارے ہوتے ہوئے عثمان رضی اللہ عنہ کیسے قتل کردیے گئے ؟ آپ نے حسن کو ایک طمانچہ بھی مارا، حالانکہ وہ
[1] فتنۃ مقتل عثمان (۱؍ ۱۶۷) المسند (۱؍۳۹۶) أحمد شاکر ۔
[2] الطبقات ؍ اہل سعد (۸؍۱۲۸) سند صحیح ہے ۔
[3] تاریخ خلیفہ بن خیاط ص (۱۷۴)۔
[4] تاریخ الإسلام، الخلفاء الراشدون ؍ الذہبی ص (۴۶۰؍۴۶۱؍) اس کی سند قوی ہے ۔
[5] تاریخ دمشق ص (۴۰۳)۔
[6] انساب الا شراف ؍ البلادری ((۵؍۶۷)۔