کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 581
دونوں نے ایک مقررہ وقت پر ملنے کا وعدہ کر رکھا ہوا؟ یہ بات ہرگز سمجھ میں نہیں آتی؟ لہٰذا یہ ماننا ہوگا کہ جن لوگوں نے جعلی خط تیار کیا تھا اور کرائے پر ایلچی مقرر کیا تھا، کہ وہ خط لے کر جائے اور مقام بویب پر پہنچ کر مصریوں کے سامنے اپناکردار نبھائے انھی لوگوں نے ایک شہ سوار کو کرائے پر طے کیا تھا کہ وہ عراقیوں کو جاکر بتا دے کے مصریوں نے عثمان کا ایک خط پکڑا ہے جس میں انھوں نے مصری باغیوں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہی بات قرین قیاس ہے، اور اسی کو علی رضی اللہ عنہ نے دلیل بناتے ہوئے ان سے پوچھا: اے کوفہ والو! اے بصرہ والو! تمھیں مصریوں کا یہ واقعہ کیسے معلوم ہوا؟ حالانکہ تم اپنے سفر کے کئی منازل طے کرچکے تھے اور پھر ہماری طرف لوٹ آئے، علی رضی اللہ عنہ نے صرف قیاس ہی پر اکتفا نہ کیا بلکہ پورے وثوق ویقین سے کہا: اللہ کی قسم! اس معاملے کے تانے بانے مدینہ میں تیار کیے گئے ہیں ۔[1] درحقیقت یہ زہر آلود جعلی خط ایسا نہیں تھا جسے ان مجرموں نے پہلی مرتبہ لکھا ہے، بلکہ اس سے پہلے امہات المومنین، علی، طلحہ، اور زبیر رضی اللہ عنہم اجمعین وغیرہ کی طرف جھوٹے و جعلی خطوط ان لوگوں نے منسوب کیے تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی کہ انھوں نے لوگوں کو خط لکھ عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت پر ابھارا، لیکن عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کی تردید کی اور کہا: قسم ہے اس ذات واحد کی جس پر مومن ایمان لائے، اور کفر کرنے والوں نے کفر کیا میں نے ان کے نام کسی سفید ورق پر روشنائی نہیں چلائی ہے یہاں تک کہ آج یہاں آبیٹھی۔[2] اعمش بھی اس واقعہ کا تعاقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں : لوگ سمجھتے تھے کہ اسے عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف جعلی طور سے منسوب کیا گیا ہے۔[3]اسی طرح باغیوں کی ان ٹولیوں نے علی رضی اللہ عنہ پر بھی تہمت لگائی کہ انھوں نے ہمیں خط لکھ کرہمیں مدینہ بلایا تھا، پھر علی رضی اللہ عنہ نے بھی ان کی ترید کی، قسم کھا کرکہا: اللہ کی قسم کھاتا ہوں میں نے تمھارے نام کوئی خط نہیں لکھا۔[4]نیز انھوں نے دیگر کئی صحابہ پر یہ تہمت لگائیں کہ انھوں نے ہمارے نام یہ خط لکھ کر بلایا تھا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا دین بگڑ چکا ہے، اس پر عمل نہیں ہورہا ہے اور مدینہ میں جہاد کرنا، دور دراز ملکی سرحدوں کی حفاظت سے بہتر ہے۔[5] حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ ان روایات کا تجزیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’یہ سب باتیں صحابہ کرام پر تہمتیں ہیں ، جھوٹے اور جعلی خطوط ان کی طرف منسوب کردیے گئے ہیں ، قاتلین عثمان یعنی خوارج کے نام علی، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم کے خطوط منسو ب کیے جاتے ہیں ، جو یکسر جھوٹ ہیں اور ان پاکیزہ نفوس نے ان کی تردید بھی کردی ہے خود عثمان کی طرف یہ جعلی اور جھوٹا خط منسوب کیا گیاہے، حالانکہ آپ نے نہ اسے لکھوایا اور نہ ہی آپ کو اس کا علم تھا۔‘‘ [6]
[1] تاریخ طبری (۵؍ ۳۵۹)۔ [2] تحقیق مواقف الصحابۃ (۱؍۳۳۴)۔ [3] تاریخ خلیفہ بن خیاط ص( ۱۶۹)۔ [4] البدایہ و النہایۃ (۷؍۱۹۱) تحقیق مواقف الصحابۃ (۱؍۳۳۵)۔ [5] البدایہ و النہایۃ (۷؍۱۷۵) تحقیق مواقف الصحابۃ (۱؍۳۳۵)۔ [6] البدایہ و النہایۃ (۷؍۱۷۵)۔