کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 580
۵: اور امانت دار وطاقتور لوگوں کو ریاستوں کا گورنر مقرر کیا جائے۔ ان مطالبات کو کتابی شکل میں تحریر کرنے کے بعد یہ بھی لکھا کہ ابن عامر رضی اللہ عنہ کو دوبارہ بصرہ ہ کا گورنر بنا کر بھیجا جائے اور ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کو کوفہ کاگورنر رہنے دیا جائے۔[1] بہرحال عثمان رضی اللہ عنہ نے شرپسند وں کی تمام ٹولیوں سے الگ الگ مل کر ان کے مطالبات تسلیم کر لیے، اور سب اپنے گھروں کو واپس لوٹ گئے۔[2] جب ان کے مطالبات تسلیم کرلیے گئے اور سب خوشی خوشی اپنے گھروں کو واپس لوٹ گئے تو شورش پسندوں کو اندازہ ہوگیا کہ اب ہمارا منصوبہ ناکام ہوچکا ہے، اور ہمارے عزائم پورے ہونے والے نہیں ہیں ، چنانچہ فتنہ کی آگ بھڑکانے اور مصالحت کے نتائج کو بیخ وبن سے اکھاڑنے کے لیے انھوں نے ایک دوسری سازش رچائی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ مصری جب اپنے ملک واپس جا رہے تھے تو راستے میں انھیں ایک اونٹ سوار ملا، جو کبھی اس قافلہ کے بہت قریب ہوتا اور کبھی ان سے بہت دور چلا جاتا ہے، گویا وہ اشارہ دے رہا تھا کہ مجھے گرفتار کرلو، چنانچہ مصری قافلے نے اسے گرفتار کرلیا، اور پوچھا کہ تم کون ہو؟ اس نے کہا: میں امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ کا ایلچی ہوں اور ان کے گورنر کے پاس جارہا ہوں ، انھوں نے قاصد کی تلاشی لی اور اس سے ایک خط دستیاب کیا جس میں عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے گورنر کو یہ ہدایت تھی کہ اس وفد کے شرکاء کو پھانسی دے دو یا قتل کردو یا ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دو، مصری گروہ نے جب یہ خط دیکھا تو مدینہ واپس لوٹ آئے۔[3] ادھر عثمان رضی اللہ عنہ کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اس سے لاعلمی ظاہر کی، اور ان سے کہا کہ دو ہی شکلوں میں تمھاری باتوں کو صحیح مانا جاسکتا ہے، مسلمانوں کی گواہی پیش کرو، یا اللہ واحد کی قسم کھاؤ کہ جس کے علاوہ کوئی معبود حقیقی نہیں ، پھر کہا: میں نے ایسا کوئی خط نہیں لکھا ہے نہ لکھوایا ہے، اور نہ ہی مجھے اس کا علم ہے، لکھنے والے کبھی کبھی دوسرے کی طرف منسوب کر کے خط لکھ دیتے ہیں اور اس پر نقلی مہر لگادیتے ہیں ۔[4] لیکن انھوں نے بد باطنی کی وجہ سے آپ کی بات نہ مانی حالانکہ آپ سچے اور پرہیزگار تھے۔ حقیقی بات یہ ہے کہ جس خط کے بارے میں ان باغیوں اور شرپسندوں نے یہ شور کیا کہ وہ عثمان رضی اللہ عنہ کا خط تھا، اس پر ان کی مہر لگی تھی، اور وہ صدقہ کے اونٹ پر سوار ہوکر جارہا تھا، اور اس خط میں عثمان رضی اللہ عنہ نے مصر کی باغی جماعت کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا یہ سب جھوٹ اور کھلا ہوا بہتان ہے جسے عثما ن رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کردیا گیا ہے۔[5]اور اس کی دلیل یہ ہے کہ مصالحت کے بعد عراقیوں کی ٹولی اپنے ملک کی طرف روانہ ہو چکی تھی اور مصریوں کی جس ٹولی نے وہ خط پکڑا تھا، اس کے اور عراقیوں کی ٹولی میں بہت طویل فاصلہ ہوچکا تھا، دونوں کا الگ الگ راستہ تھا، عراقی مشرق میں جارہے تھے اور مصری مغرب میں ، اس کے باوجود یہ کیسے ممکن ہوا کہ دونوں ٹولیاں ایک ساتھ مدینہ واپس آگئیں ، جیسے کہ
[1] فتنۃ مقتل عثمان (۱؍۱۲۹)۔ [2] ایضًا [3] تاریخ طبری (۵؍۳۷۹)۔ [4] فتنۃ مقتل عثمان (۱؍ ۱۳۲) البدایہ و النہایۃ (۷؍۱۹۱)۔ [5] تیسیر الکریم المنان فی سیرہ عثمان بن عفان ؍ الصلابی ،ص (۴۱۰) ۔