کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 58
عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بات پسند فرمائی اور میری بات پسند نہیں فرمائی، چنانچہ قیدیوں سے فدیہ لینا طے کر لیا۔ اس کے بعد جب اگلا دن آیا میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ بیٹھے رو رہے ہیں ۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے بتائیں آپ اور آپ کے ساتھی کیوں رو رہے ہیں ، اگر مجھے بھی رونے کی وجہ ملی تو روؤں گا اور اگر نہ مل سکی تو آپ حضرات کے رونے کی وجہ سے روؤں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمھارے ساتھی نے جو فدیہ لینے کی رائے مجھے دی تھی، اسی کی وجہ سے رو رہا ہوں اور آپ نے ایک قریبی درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسی کی وجہ سے مجھ پر ان کا عذاب اس درخت سے بھی زیادہ قریب پیش کیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں : ﴿ مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌo لَوْ لَا کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ o فَکُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلًا طَیِّبًا وَّ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo ﴾ (الانفال : ۶۷ تا ۶۹) ’’نبی کے ہاتھ میں قیدی نہیں چاہییں جب تک کہ ملک میں اچھی خونریزی کی جنگ نہ ہو جائے، تم تو دنیا کے مال چاہتے ہو اور اللہ کا ارادہ آخرت کا ہے اور اللہ زور آور باحکمت ہے۔ اگر پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی تو جو کچھ تم نے لیا ہے، اس بارے میں تمھیں کوئی بڑی سزا ہوتی، پس جو کچھ حلال اور پاکیزہ غنیمت تم نے حاصل کی ہے خوب کھاؤ پیو اور اللہ سے ڈرتے رہو یقینا اللہ غفور و رحیم ہے۔‘‘ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مال غنیمت حلال کر دیا۔[1] میدان احد اور حمراء الاسد میں جنگ احد میں مسلمانوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے بچھڑ گئے اور میدان جنگ کے مختلف گوشوں میں بکھر گئے اور یہ خبر مشہور ہو گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قتل کر دیے گئے ہیں ۔ اس کا ردّعمل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر مختلف پڑا۔ میدان وسیع تھا۔ ہر ایک اپنے میں مشغول تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ سب سے پہلے صفوں کو چیرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ابوبکر، ابوعبیدہ بن الجراح، علی، طلحہ، زبیر، عمر بن خطاب، حارث بن صمہ، ابودجانہ، سعد بن ابی وقاص وغیرہم رضی اللہ عنہم جمع ہو گئے اور
[1] مسلم: الجہاد والسیر : ۳/۱۳۸۵، ۱۷۶۳۔