کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 579
جواب دہی کے لیے خلیفۂ وقت سے مناظرہ اور مجادلہ کیا گیا اور شرپسندوں کو اس پر ابھارا گیا، دیگر حکام اور گورنران ریاست کو طعن وتشنیع کا ہدف بنایا گیا، عائشہ، علی، طلحہ، اور زبیر ( رضی اللہ عنہم ) کی طرف جھوٹے خطوط اور غلط تحریریں منسوب کی گئیں اور یہ بات عام کی گئی کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ خلافت کے زیادہ مستحق تھے، وہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی ہیں ، نیز بصرہ، کوفہ اور مصر میں ہر جگہ سے لوگوں کے چار چار ٹولیاں بنائی گئیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ پہلے سے منظم تیاری کی جاچکی تھی اور شورش پسندوں نے مدینہ والوں کو اس دھوکا میں رکھا کہ ہم لوگ صحابہ کی دعوت پر یہاں آئے ہیں ۔ پھر انھوں نے زینہ بہ زینہ ایک ایک منصوبہ انجام دیا یہاں تک کہ نتیجہ عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی شکل میں ظاہر ہوا۔ [1]
۱۔ شورش کے آغاز میں علی رضی اللہ عنہ کا موقف:
سیّدناعلی رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ عہد میں بھی دیگر خلفاء کی طرح اپنے معروف ومعہود طرز عمل پر قائم رہے۔ یعنی سمع و طاعت کا مظاہرہ کیا، مشورہ اور خیر خواہی کو مقدم رکھا، آپ نے عثمان رضی اللہ عنہ کی اطاعت، اور ان کے حکم کی بصدشوق پابندی کا اظہار نہایت عمدہ الفاظ میں کیا اگرچہ انھیں بجالانا گراں ہی کیوں نہ ہو: ’’ اگرعثمان رضی اللہ عنہ چشمہ صرار تک جانے کو کہیں تو میں اسے سننے اور ماننے کے لیے تیار ہوں ۔‘‘[2]
اور عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت سے تقریباً ڈیڑھ مہینا قبل جب شرپسندوں کاگروہ ذو المروہ پہنچا تو عثمان رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ اور ایک دوسرے شخص کو جس کا نام روایات میں مذکورنہیں ہے، ان کے پاس بھیجا، علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: اللہ کی کتاب کے حوالے سے فیصلہ ہوگا اور تمھاری ناراضی کے اسباب پر غو ر کیا جائے گا۔ اس پر انھوں نے اپنی موافقت کا اظہار کیا۔[3] اور ایک روایت میں ہے کہ دو، تین مرتبہ علی رضی اللہ عنہ اور ان کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی، پھر سب کہنے لگے، یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی ہیں ، اور امیرالمومنین عثمان رضی اللہ عنہ کے قاصد بن کرآئے ہیں ، اللہ کی کتاب کا حوالہ دیتے ہیں ، ان کی باتیں مان لو پھر انھوں نے ان کی باتیں مان لیں ۔[4] چنانچہ وہ لوگ اپنے پانچ مطالبات پر صلح کرنے کے لیے آمادہ ہوئے:
۱: جوملک بدر کردیے گئے ہیں انھیں واپس لایا جائے۔
۲: جنھیں سرکاری خزانہ سے کوئی عطیہ نہیں دیا گیا ہے، انھیں عطیہ دیا جائے۔
۳: اور مال فے کو ان کے مستحقین تک پورا پورا پہنچایا جائے۔
۴: وظائف کی تقسیم میں عدل وانصاف سے کام لیا جائے۔
[1] دارسات فی عہد النبوۃ والخلافۃ الراشدہ ص (۴۰۱)۔
[2] مصنف ابن أبی شیبۃ (۱۵؍۲۲۵) اس کی سند صحیح ہے۔
[3] تاریخ دمشق ترجمہ عثمان ص (۳۲۸) تاریخ خلیفہ بن خیاط ص (۱۶۹)۔
[4] فتنۃ مقتل عثمان (۱؍ ۱۲۹)۔