کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 578
نے گواہی دی کہ میں نے اس کو شراب کی قیکرتے ہوئے دیکھا ہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے گواہی لینے کے بعد کہا: اگر شراب نہ پی ہوتی تو شراب کی قے کیوں کرتا، لہٰذا اے علی! اٹھو اور اسے کوڑے لگاؤ اور علی رضی اللہ عنہ نے حسن سے کہا، اے حسن! تم اٹھو اور کوڑے لگاؤ، تو حسن رضی اللہ عنہ کہنے لگے: حکومت کی آسائشوں سے جو شخص لطف اندوز ہو مشکلات بھی اسی کے سپرد کرو، گویا انھوں نے اپنی ناراضی کا اظہار کیا، پھر علی رضی اللہ عنہ کہا: اے عبداللہ بن جعفر! اٹھو اور اسے کوڑے لگاؤ، چنانچہ انھوں نے کوڑے مارے اور علی رضی اللہ عنہ انھیں شمار کرتے رہے، جب وہ چالیس کوڑے لگا چکے تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا: رک جاؤ، اور پھر فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر نے چالیس، چالیس کوڑے لگائے ہیں اور عمر رضی اللہ عنہ نے اسّی کوڑے لگوائے اور یہ سب سنت ہے، لیکن میں چالیس ہی کو پسند کرتا ہوں ۔[1] ۲۔ سیّدناعلی رضی اللہ عنہ کا عثمان رضی اللہ عنہ کو یہ مشورہ کہ لوگوں کو ایک قراء ت پر جمع کردو: سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے مہاجرین وانصار کو جمع کیا اور لوگوں کو ایک قراء ت کا پابند بنانے کے لیے ان سے مشورہ کیا، ان میں ممتاز صحابہ شریک تھے اور سب سے پیش پیش علی رضی اللہ عنہ تھے۔ واضح رہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے مصحف قرآنی کو جمع کرکے دین میں کوئی بدعت ایجاد نہیں کی۔ ایسا آپ سے پہلے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی کر چکے تھے، نیز آپ نے تنہا اپنی مرضی سے یہ کام نہیں کیا بلکہ اعیان صحابہ سے اس سلسلے میں مشورہ کیا اور سب کو یہ چیز پسند آئی اور اپنی خوشی کا اظہار انھوں نے یہ کہتے ہوئے کیا کہ آپ نے کیسی اچھی بات سوچی اور کتنا عمدہ کام کیا۔[2] جس وقت عثمان رضی اللہ عنہ قرآن کے مختلف شخصی تیار کردہ نسخوں کو جلا رہے تھے اس وقت مصعب بن سعد صحابہ کے ساتھ تھے، آپ نے دیکھا کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے اس کام سے صحابہ کرام بہت خوش تھے۔[3] اور اس کام پر علی رضی اللہ عنہ جب کسی کو عثمان رضی اللہ عنہ پرعیب لگاتے ہوئے سنتے تو کہتے: اے لوگو! عثمان کے سلسلہ میں تم انتہا پسندی کے شکار نہ ہوجاؤ، ان کے حق میں بھلی ہی بات کہو، مصاحف قرآن کے ساتھ انھوں نے جو کچھ کیا ہم سب پوری جماعت کے سامنے کیا، میں خلیفہ ہوتا تو میں بھی وہی کرتا جو انھوں نے کیا۔ [4] شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے فتنہ میں سیّدناعلی رضی اللہ عنہ کا موقف سیّدناعثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی سازش میں دشمنان اسلام نے عوام الناس کو بھڑکانے والے اسلوب و وسائل کو استعمال کیا، یعنی افواہوں کا بازار گرم کیا اور پروپیگنڈائی آوازیں معاشرہ میں گونجنے لگیں ، عوام الناس کے سامنے
[1] شرح النووی علی صحیح مسلم ؍ الحدود(۱۱؍۲۱۶)۔ [2] فتنہ مقتل عثمان (۱؍ ۷۸)۔ [3] التاریخ الصغیر ؍ البخاری ۱؍ ۹۴) اس کی سند حسن لغیرہ ٖہے۔ [4] فتح الباری (۹؍ ۱۸) اس کی سند صحیح ہے ۔