کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 577
نے علی کو عثمان پر ترجیح دینے والوں کے خلاف سخت نکیر کی ہے، اور یہاں تک لکھا ہے کہ جس نے استحقاق خلافت میں علی رضی اللہ عنہ کو عثمان رضی اللہ عنہ پر ترجیح دی گویا اس کا زعم یہ ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان رضی اللہ عنہ کو علی رضی اللہ عنہ پر مقدم کرکے امانت الٰہی میں خیانت کی ہے ۔ [1] ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اہل سنت اس بات پر متفق ہیں کہ سیّدناعثمان رضی اللہ عنہ ، سیّدناعلی رضی اللہ عنہ پر مقدم ہیں ۔ عثمان و علی ( رضی اللہ عنہما ) کو ایک دوسرے پر ترجیح دینے کا مسئلہ ان اصولی مسائل میں سے نہیں ہے جن کی مخالفت کرنے والوں کو جمہور اہل سنت کے نزدیک گمراہ قرار دیا جاتا ہے، البتہ استحقاق خلافت کے مسئلہ میں علی رضی اللہ عنہ کو عثمان رضی اللہ عنہ پر ترجیح دینے والوں کو ضرور گمراہ کہتے ہیں ۔ ان کا ایمان وعقیدہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بالترتیب ابو بکر، پھر عمر پھر عثمان، پھر علی رضی اللہ عنہم اجمعین خلیفہ ہیں ، اگر کوئی شخص ان ائمہ کرام میں سے کسی کی خلافت پر اعتراض کرتا ہے تو اپنے گدھے سے بھی زیادہ احمق ہے۔‘‘[2] امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ علی رضی اللہ عنہ پر عثمان ( رضی اللہ عنہ ) کی فضیلت کے مسئلہ میں علما کے اقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ’’ اس مسئلہ میں دو قول ہیں ، ایک یہ کہ علی رضی اللہ عنہ کو عثمان رضی اللہ عنہ پر فضیلت دینا اور انھیں مقدم جاننا جائز نہیں ہے۔ جو شخص ایسا کرتا ہے وہ سنت سے خارج ہوکر بدعت میں گرفتار ہوجاتا ہے، کیونکہ وہ اجماع صحابہ کا مخالف ہے۔ اسی لیے کہا جاتاہے کہ جس نے علی رضی اللہ عنہ کو عثمان رضی اللہ عنہ پر مقدم کیا اس نے مہاجرین اور انصار دونوں پر تہمت لگائی۔ کئی ایک حضرات کا یہی مسلک ہے۔ انھیں میں سے ایوب سختیانی، احمد بن حنبل اور دارقطنی رحمہم اللہ ہیں اور دوسرا قول یہ ہے کہ جس نے علی رضی اللہ عنہ کو عثمان رضی اللہ عنہ پر مقدم کیا اسے بدعتی نہیں کہاجائے گا اس لیے کہ دونوں کے احوال ومناقب تقریباً ملتے جلتے ہیں ۔ [3] سیّدناعثمان رضی اللہ عنہ کے دورمیں علی رضی اللہ عنہ بحیثیت مشیر اور حدود نافذکرنے والے ۱۔ عہد عثمانی میں حدود کی تنفیذ سیّدناعلی رضی اللہ عنہ کے حوالے: حصین بن منذر کا بیان ہے کہ میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، ولید رضی اللہ عنہ پکڑ کر لائے گئے، دوآدمیوں نے ان کے خلاف گواہی دی کہ انھوں نے شراب پیا ہے، گواہی دینے والوں میں ایک حمران بھی تھے اور دوسرے
[1] حقبۃ من التاریخ ؍ عثمان الخمیس ص (۶۶)۔ [2] مجموع الفتاوٰی (۳؍۱۰۱؍۲۰۱)۔ [3] مجموع الفتاویٰ (۴؍ ۲۶۷) لیکن قول اول ہی راجح ہے کیونکہ اجماع صحابہ حجت شرعی ہے اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ((کُنَّافِی زَمَنِ الْاَرْضِلَاتَعْدِلُ بِأَبِیْ بَکْرٍ اَحَدًا ،ثُمَّ عُمَرُ ثُمَّ عُثْمَانُ ثُمَّ نَتْرُکَ أَصْحَابُ النَّبِیّ صلي الله عليه وسلم لَانُفَاضِلُ بَیْنَہُمْ۔)) (البخاری؍ فضائل الصحابۃ (۳۶۹۷) ’’ہم ابوبکر کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے تھے پھر عمر اور پھر عثمان اور پھر ان کے بعد صحابہ کے درمیان ایک کو دوسرے پر فوقیت نہیں دیتے تھے۔ ‘‘سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ فضیلت و خلافت دونوں میں سیّدناعلی رضی اللہ عنہ پر فوقیت رکھتے ہیں ۔ (مترجم)