کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 576
دماغ میں بھی نہ آئی ہوگی، اور کیونکر آتی، جب کہ سارا مال ومتاع اپنے دین کی حفاظت کے لیے قربان کردیے تھے اور نہ ہی یہ تصور ان چیدہ وچنیدہ جنت کی بشارت یاب شخصیات کی صحیح معرفت سے میل کھاتا ہے، ان کی زندگی کے بہت سارے واقعات اس بات پر گواہ ہیں کہ یہ لوگ اپنے پیچیدہ ومشکل ترین مسائل کو حل کرنے کے لیے اس تنگ نظری سے کہیں زیادہ بڑھ کرسوچتے اور عمل کرتے تھے۔ پس یہ واقعہ کسی خاندانی یا قبائلی انتخاب کی طرح اپنے اپنے قبیلے کی نمائندگی کا ہرگز نہیں تھا، بلکہ اسلام میں بلند رتبہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ شوریٰ کے سب سے زیادہ اہل اور مستحق قرار پائے تھے ۔[1]
۳۔ سیّدناعلی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کردہ تہمتیں اور جھوٹی باتیں :
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ابن جریر وغیرہ بہت سارے مورخین کا متعدد مجہول روایوں کے حوالے سے یہ لکھنا کہ علی رضی اللہ عنہ عبدالرحمن بن عوف ( رضی اللہ عنہ ) سے کہا کہ تم نے مجھے دھوکا دیا اور عثمان کو اس لیے ترجیح دی کہ وہ تمھارے سسرالی رشتے کے ہیں اور ہر روز اپنے معاملات میں تم سے مشورہ لیں گے اور پھر آپ (علی رضی اللہ عنہ ) نے بیعت کرنے میں توقف کیا، یہاں تک کہ عبدالرحمن کو اس آیت کریمہ کا سہارا لینا پڑا:
﴿ إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّـهَ يَدُ اللَّـهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ ۚ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّـهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا ﴾ (الفتح:۱۰)
’’بے شک وہ لوگ جو تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ در حقیقت اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں ، اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے، پھر جس نے عہد توڑا تو در حقیقت وہ اپنی ہی جان پر عہد توڑتا ہے اور جس نے وہ بات پوری کی جس پر اس نے اللہ سے عہد کیا تھا تو وہ اسے جلدہی بہت بڑا اجر دے گا ۔‘‘
یہ اور اس طرح کی دوسری روایات جو صحیح احادیث کے خلاف ہیں ، ان کے قائلین اور نقل کرنے والے مردودہیں ، واللہ اعلم۔ صحابہ کرام کے بارے ہمارا علم وعقیدہ ان روافض اور قصہ گو احمقوں کی توہمات سے بالکل پاک ہے جن کے یہاں صحیح اور ضعیف، درست اور غلط کی کوئی تمیز نہیں ہے ۔‘‘ [2]
سیّدناعثمان اور جناب علی رضی اللہ عنہما کے مابین تفاضل:
اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ جس نے استحقاق خلافت میں علی رضی اللہ عنہ کو ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما پر مقدم کیا وہ گمراہ اور بدعتی ہے، اور جس نے علی کو عثمان رضی اللہ عنہ پر مقدم کیا وہ گمراہ اور مبتدع تو نہیں لیکن غلطی پر ضرور ہے۔[3] اگر چہ بعض علماء
[1] الخلفاء الراشدون امین القضاۃ ص (۷۸،۷۹)۔
[2] البدایۃ والنہایۃ (۷؍۱۵۲)۔
[3] مجموع الفتاویٰ ( ۳؍ ۱۰۱؍۱۰۲)۔