کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 575
اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما تھے، وہ سعد جن کے بارے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
((ہذاخالی، فلیرنی امرء خالہ۔))[1]
’’یہ میرے ماموں ہیں کوئی مجھے ان جیسا اپنا ماموں دکھائے۔ ‘‘
دوسری بات یہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان رشتہ مواخات کا بھی کوئی تصور درست نہیں ، کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کا آپس میں ، یاانصار کا آپس میں مواخات نہیں کرایا تھا بلکہ یہ مواخات مہاجرین اور انصار کے درمیان قائم ہوئی تھی، انھیں مہاجرین میں سے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے جن کا رشتہ مواخات سعد بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ
سے ہوا تھا۔[2] یہ بات صحیح احادیث سے ثابت اور مشہور ہے اور اہل علم سے مخفی نہیں ہے۔[3]
شیعی روایات نے دونوں حضرات میں سسرالی رشتہ کے حوالے سے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ پر جانب داری کی تہمت تو لگادی لیکن یہ مسلمہ حقیقت بھلا دیا کہ نسب وخاندان کا رشتہ، سسرالی رشتے سے کہیں زیاد ہ قوی اور بااثر ہوتاہے، نیز اس پہلو پر غور نہیں کیا کہ دور اول کے مسلمانوں کے تعلقات کا مزاج کیا تھا؟ وہ بھول گئے کہ ان کے تعلقات کی بنیادیں خاندانی یا سسرالی قرابت داریاں نہ تھی، بلکہ اسلامی اخوت تھی اور عبدالرحمن بن عوف اور عثمان رضی اللہ عنہما کے درمیان سسرالی رشتے کی نوعیت بس اتنی تھی کہ ولید کی بہن ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط، عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھیں ۔[4]
۲۔ اموی پارٹی اور ہاشمی پارٹی:
ابومخنف کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بیعت کے دوران بنو ہاشم اور نبو امیہ کے درمیان بڑی ہنگامہ آرئی ہوئی۔ حالانکہ یہ بات قطعاً درست نہیں ہے اور نہ ہی کسی صحیح حتی کہ ضعیف روایت میں یہ وارد ہے۔[5] افسوس کی بات ہے کہ سند و متن ہر اعتبار سے ان رافضی روایات کے بطلان اور اس کے برخلاف صحیح روایات کے ثبوت کے باوجود بعض مورخین اپنے بعض اعتراض و مقاصد کے پیش نظر ان شیعی روایات کے پیچھے دوڑ پڑے اور اپنے غلط تحلیل و تجزیہ کی بنیاد ان روایات پر رکھی اور یہ تاثر دیا کہ خلیفہ کے انتخاب کے لیے صحابہ کرام کی ترجیحات اور مشورے میں خاندانی وقبائلی رنگ غالب تھا۔ وہ دو پارٹیوں میں تقسیم ہوگئے تھے، ایک اموی پارٹی اور دوسری ہاشمی پارٹی۔ حالانکہ یہ ایک وہمی تصور اور مردود استنتاج ہے، جس کی کوئی دلیل نہیں ہے، اس لیے کہ یہ بات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس ماحول و مزاج سے ہرگز میل نہیں کھاتی جس میں وہ زندگی گزار رہے تھے جس کا طرۂ امتیاز یہ تھا محض اسلام کی خاطر مہاجرین و انصار اپنے باپ، بھائی اور خاندان کے خلاف شانہ بہ شانہ کھڑے ہوجاتے تھے، یہ بات ان کے ذہن و
[1] صحیح سنن الترمذی (۳؍ ۲۲۰) حدیث نمبر (۴۰۱۸)۔
[2] صحیح البخاری ، حدیث نمبر (۳۷۸۰)
[3] منہاج السنۃ النبویۃ (۶؍۲۷۱،۲۷۲)۔
[4] الطبقات الکبریٰ (۳؍۱۲۷)۔
[5] مرویات أبی مخنف فی تاریخ الطبری ص (۱۷۷،۱۷۸)۔