کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 574
جیسے کہ ابو مخنف نے ’’ کتاب الشوریٰ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی، اسی طرح ابن عقدہ اور ابن بابویہ[1] نے بھی کتابیں لکھیں اور ابن سعد نے مجلس شوریٰ، انتخاب عثمان اور منصب خلافت سنبھالنے کی تاریخ سے متعلق واقدی کی سند سے نو (۹) روایات نقل کی ہیں ۔[2] اور ایک روایت عبیداللہ بن موسیٰ کی سند سے نقل کیا ہے۔ جس میں عمر رضی اللہ عنہ کے واقعہ شہادت، مجلس شوریٰ کے لیے چھ افراد کی نامزدگی، علی اور عثمان رضی اللہ عنہما میں سے جو بھی خلافت سنبھالے اسے خلافت کے متعلق نصیحت اور صہیب رومی رضی اللہ عنہ کے لیے اس سلسلہ میں وصیت کا تذکرہ ہے۔[3]
بلاذری نے بھی مجلس شوریٰ اور بیعت عثمان کے واقعہ کو ابو مخنف کی روایت سے نقل کیا ہے،[4] اور ہشام کلبی سے ان میں سے بعض باتوں کو ابو مخنف کے حوالے سے اور بعض کو خود اپنی سند سے،[5] اور واقدی سے[6] اور عبیداللہ بن موسیٰ [7] سے روایت کیا ہے۔ طبری نے واقعہ شوریٰ کو نقل کرتے ہوئے جن چند روایات پر اعتماد کیا یہ ان میں ابو مخنف کی روایت شامل ہے۔[8] ابن ابی الحدید نے واقعہ شوریٰ کے کچھ حصے کو احمد بن عبدالعزیز الجوہری کی سند سے نقل کیا ہے،[9]اور اشارہ کیا ہے کہ یہ واقدی کی کتاب ’’الشورٰی‘‘ سے منقول ہے۔[10]
یہ تمام تر روایات ان کے مختلف مکر و فریب اور سازشوں پر مشتمل ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہاں چند ایک کو بطور مثال ذکر کیا جارہا ہے:
۱۔ خلیفۃ المسلمین کے انتخاب میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر جانب داری کی تہمت:
شیعی روایت، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر یہ تہمت لگاتی ہیں کہ انھوں نے خلیفہ کے انتخاب میں جانب داری سے کام لیااور سیّدناعلی رضی اللہ عنہ اس مہم کی ذمہ داری عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو سونپے جانے سے مطمئن نہ تھے، چنانچہ ابو مخنف اورہشام کلبی اپنے باپ اور احمد الجوہری سے روایت کرتے ہیں کہ عمر ( رضی اللہ عنہ ) نے طرفین کے ووٹ برابر ہونے کی صورت میں جس طرف عبدالرحمن بن عوف ہوں اس کو ترجیح دی، اور علی کو بھی احساس ہوگیا کہ اب خلافت ان کے ہاتھوں میں آنے والی نہیں ہے، اس لیے کہ عبدالرحمن سسرالی قرابت داری کا لحاظ کریں گے اور عثمان رضی اللہ عنہ ہی کو ترجیح دیں گے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے عثمان اور عبدالرحمن رضی اللہ عنہما کے درمیان کسی بھی خاندانی قرابت یا رشتہ داری کی تردید کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں : سیّدناعبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ، عثمان رضی اللہ عنہ کے نہ حقیقی بھائی تھے، نہ عم زادبھائی تھے، اور نہ ہی ان کے قبیلہ کے تھے۔ ان کا تعلق بنو زہرہ سے تھا اور عثمان رضی اللہ عنہ کا تعلق بنو امیہ سے اور بنوزہرہ کا بنوامیہ کے مقابلے بنوہاشم کی طرف زیادہ میلان تھا، اس لیے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ننھال تھا، اور اسی قبیلہ سے عبدالرحمن بن عوف
[1] الذریقہ الی تصانیف الشیعہ (۱۴؍ ۲۴۶) ۔
[2] الطبقات الکبرٰی ؍ ابن سعد (۳؍ ۶۳،۶۷)۔
[3] الطبقات الکبرٰی لابن سعد (۳؍۶۳، ۶۷)۔
[4] أنساب الأشراف ، (۵؍ ۱۸، ۱۹)۔
[5] أنساب الأشراف ، (۵؍ ۱۸، ۱۹)۔
[6] أنساب الأشراف ، (۵؍ ۶)۔
[7] أثر التشیع علی الروایات التاریخیۃ ص (۳۲۱) ۔
[8] شرح نہج البلاغۃ (۹؍ ۴۹،۵،۵۸) ۔
[9] شرح نہج البلاغۃ (۹؍۱۵)۔
[10] أثر التشیع علی الروایات التاریخیۃ ص (۳۲۲)۔