کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 573
چادر کو زیادہ استعمال کرتے ہیں ؟ آپ نے کہا: صحیح بات ہے، اسے مجھے میرے دوست اور مخلص بھائی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے دی ہے، وہ اللہ کے خیر خواہ تھے تو اللہ نے ان کی خیر خواہی کی، پھر آپ رونے لگے۔[1] (تفصیل ملاحظہ ہو، سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ، ص: ۲۵۹) (۳)…عہد عثمانی میں سیّدناعثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت پر علی رضی اللہ عنہ کی بیعت: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کی تدفین کے فوراً بعد شوریٰ کی منتخب کمیٹی اور اس کے اعلیٰ ممبران ام المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں جمع ہوئے اور بعض روایات کے مطابق ضحاک بن قیس کی بہن فاطمہ بنت قیس کے گھر جمع ہوئے تاکہ عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد مسلمانوں کی زندگی میں جو سب سے اہم معاملہ درپیش ہے، اسے حل کیاجائے تمام ممبران نے اپنی اپنی رائے نہایت وضاحت وتفصیل سے پیش کی، اور اللہ کے فضل سے جس نتیجہ پر پہنچے عوام و خواص سب نے اسے خوشی خوشی تسلیم کیا[2] مجلس شوریٰ کی کارروائی کی نگرانی اور خلیفہ کے انتخاب میں عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سب سے اہم کردار ادا کررہے تھے۔ خلافت کی ذمہ داریاں کون سنبھالے گا اور مسلمانوں کے معاملات کی تدبیر وسیاست کون کرے گا، اس کے لیے عبدالرحمن بن عوف نے منظم شورائیت کا واضح ترین نمونہ پیش کیا اور اپنی عظیم ذمہ داری کو بحسن و خوبی نبھانے کے لے نہایت صبر وضبط، جہد مسلسل اور حسن تدبیر سے کام لیا اور کامیاب ہوئے۔[3] یقینا جتنی جانفشانی اور مہارت سے آپ نے قافلۂ شوریٰ کی قیادت کی اس پر آپ قابل مبارکباد ہیں ۔ [4] شوریٰ سے متعلق رافضی دسیسہ کاریاں اسلامی تاریخ میں بہت سی رافضی خرافات و اباطیل در آئی ہیں ، انھیں میں سے ایک مسئلہ انتخابِ عثمان رضی اللہ عنہ اور اس کے لیے شوریٰ کی کارروائی بھی ہے۔ مستشرقین نے حقیقت سے آنکھیں موند کر ان باطل روایات کو کافی اچھالا اور پروپیگنڈا کیا، بد قسمتی سے بہت سارے مورخین اور جدید مفکرین نے اس موضوع سے متعلق روایات کی چھان پھٹک نہیں کی، ان کی اسناداور متول کی تحقیق نہیں کی۔ نتیجتاً ان روایات سے متاثر ہوگئے اور مسلمانوں میں غلط باتیں پھیل گئیں ۔ رافضی مورخین نے شوریٰ اور خلافت کے لیے عثمان رضی اللہ عنہ کی نامزدگی کو خاص طور سے موضوع بحث بنایا اور اپنی من گھڑت وجھوٹی باتوں نیز خرافات وہفوات کو اس میں بھر دیا، بلکہ ان کے متعدد مولفین نے اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں ۔
[1] المصنف ؍ ابن أبی شیبۃ (۱۲؍۲۹) حدیث نمبر (۱۲۰۴۷)بحوالہ: الشریعۃ ؍ الآجری (۵؍۲۳۲۷) اس کی سند حسن ہے۔ [2] عثمان بن عفان ؍ صادق عرجون ص (۶۲؍۶۳) [3] عثمان بن عفان (۷۰؍۷۱)۔ [4] مجلۃ البحوث الإسلامیۃ ؍ عدد (۱۰) ص (۲۵۵)۔