کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 572
دیتے تھے۔ اس کی چند مثالیں قابل ذکر ہیں : ۱۔ عبداللہ بن عمر کے مقابلے میں تم اجازت پانے کے زیادہ مستحق ہو: حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ مجھ سے ایک روز عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے میرے بیٹے! اگر تم ہمارے پاس بھی آیا کرتے اور مل لیا کرتے توکتنا اچھا ہوتا، ایک روز میں آیا تو دیکھا کہ آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تخلیہ میں ہیں اور ابن عمر دروازے پر تھے، ان کو اند ر آنے کی اجاز ت نہیں دی گئی تھی، یہ دیکھ کر میں واپس آگیا، پھر ایک دن عمر رضی اللہ عنہ کا سامناہوا تو انھوں نے فرمایا: بیٹے تم میرے پاس آئے نہیں ؟ میں نے کہا: میں آیا تھا لیکن آپ معاویہ کے ساتھ تخلیہ میں تھے، میں نے دیکھا کہ ابن عمر واپس ہوگئے تو میں بھی لوٹ آیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم عبداللہ بن عمر سے زیادہ اجازت پانے کے مستحق ہو ہمارے دماغ میں ایمان کی جو تخم ریزی ہوئی وہ اللہ کا احسان ہے پھر تمھارے گھرانے کا فیض ہے، یہ کہہ کر آپ نے سرپر اپنا ہاتھ رکھا۔[1] ۲۔ وظیفہ دینے میں بنی ہاشم کو مقدم کرنا: ابو جعفر سے روایت ہے کہ جب اللہ نے فتوحات کے دروازے کھول دیے تو عمر رضی اللہ عنہ نے ہر ایک کے لیے وظیفہ مقرر کرنے کا ارادہ کیا اور رائے مشورہ کے لیے کبار صحابہ کوجمع کیا، عبدالرحمن بن عوف نے کہا: آپ اپنی ذات سے شروع کیجیے۔ آپ نے کہا: ہرگز نہیں ، اللہ کی قسم! اس سے شروع کروں گا جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ قریب ہوگا، اور بنو ہاشم سے شروع کروں گا، جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قبیلہ ہے، چنانچہ آپ نے پہلے عباس رضی اللہ عنہ کا پھر علی رضی اللہ عنہ کاحصہ مقرر کیا، یہاں تک کہ پانچ قبائل کو ترتیب سے مقررکرتے رہے اور اخیر میں بنوعدی بن کعب تک پہنچے، ترتیب یوں رکھی گئی کہ بنو ہاشم میں جو لوگ بدر میں شریک تھے ان کے لیے عطیات مقرر کیے، پھر بنو امیہ بن عبد شمس میں جو لوگ بدر میں شریک تھے ان کے نام لکھے، جو زیادہ قریب تھا وہ پہلے پھر اس سے جو قریب تھا یعنی الا قرب فاالاقرب، سب کے حصے مقرر کیے اور حسن وحسین رضی اللہ عنہما کے لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک مقام و مرتبہ اور قربت کی وجہ سے وظیفہ مقرر فرمایا۔ [2] ۳۔ یہ چادرمجھے میرے بھائی اوردوست نے دی ہے: ایک مرتبہ علی رضی اللہ عنہ عدنی چادر اوڑھ کر باہر نکلے اور کہا: مجھے یہ کپڑا میرے بھائی، میرے جگری دوست، میرے مخلص اور وفادار امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ نے دیا ہے۔[3] اور ابو السفر سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ علی رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی چادر لائی گئی جسے آپ زیادہ استعمال کرتے تھے، لوگوں نے آپ سے پوچھا: کیا بات ہے کہ آپ اس
[1] کنز العمّال (۷؍۱۰۵) الإصابۃ (۱؍۱۳۳) المرتضی ص (۱۸۷)۔ [2] الخراج ؍ أبو یوسف (۲۴، ۵۲) المرتضیٰ ص (۱۸۸)۔ [3] المختصر من کتاب الموافقۃ ص(۱۴۰)۔