کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 571
ضرور کوئی بات ہے، تبھی علی نے ایسا کیا ہے، ورنہ ایسا نہ کرتے، پھر آپ نے علی رضی اللہ عنہ کو بلابھیجا، آپ تشریف لائے آپ کے چہرہ پر ناراضی کے آثار تھے، عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا وجہ ہے، آپ نے ان لوگوں کو کیوں واپس کردیا؟ آپ فرمایا: کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا ہے: ((رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَـلَاثَہٍ: عَنِ النَّائِمِ حَتّٰی یَسْتَیْقَظَ وَ عَنِ الصَّغِیْرِ حَتّٰی یَکْبَرَ، وَعَنِ الْمُبْتَلٰی حَتَّی یَعْقِلَ۔)) ’’تین قسم کے لوگ مرفوع القلم ہیں ، سونے والا جب تک کہ بیدار نہ ہوجائے، بچہ، جب تک کہ بالغ نہ ہوجائے، پاگل، جب تک کہ اس کا دماغ صحیح نہ ہوجائے۔‘‘ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کہا: ہاں میں نے سنا ہے، علی رضی اللہ عنہ نے کہا: تو یہ عورت فلاں قبیلہ کی پاگل ہے، ممکن ہے زانی نے ایسے وقت میں اس سے زنا کیا ہو جب اس کے ہوش و حواس صحیح نہ رہے ہوں ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ تو معلوم نہیں ہے۔ پھر آپ نے اسے رجم نہ کیا۔[1] عمر رضی اللہ عنہ نے پہلا فیصلہ اس بنا پر دیا تھا کہ آپ کو عورت کے جنون کا علم نہیں تھا۔ ۲۔ غلطی پر ڈٹے نہ رہو سنت کی طرف رجوع کرو! سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک عورت لائی گئی جس کا نکاح دوران عدت کردیا گیا تھا، آپ نے دونوں میں جدائی کردی اورعورت کے مہر کو بیت المال میں یہ کہہ کرڈال دیا کہ میں باطل نکاح پر مہر کو جائز نہیں سمجھتا، جاؤ تم دونوں کبھی آپس میں نکاح نہیں کرسکتے۔ جب علی رضی اللہ عنہ کو یہ فیصلہ معلوم ہوا تو کہنے لگے اگرچہ ان دونوں نے جہالت کی تھی،لیکن سنت یہ ہے کہ عورت کی شرم گاہ حلال کرنے کے بدلے اسے مہر دیا جائے اور دونوں میں عدت ختم ہونے تک جدائی کرادی جائے، پھر وہی آدمی پیغام نکاح دینے والے دوسرے لوگوں کی طرح خود بھی پیغام نکاح دے سکتاہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کرخطبہ دیا، اور کہا: غلطی پر ڈٹے نہ رہو، سنت کی طرف رجوع کرو اور پھر آپ نے خود علی رضی اللہ عنہ کی بات مان لی۔[2] سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کئی مرتبہ علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ پر اپنا نائب مقرر کیا: الف:… جنگ قادسیہ سے پہلے چشمۂ ’’صراء‘‘ جاتے ہوئے ب:…جابیہ جاتے ہوئے ج:…ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو لے کر حج کو جاتے ہوئے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اور آل علی کا عمر رضی اللہ عنہ سے مخلصانہ تعلق سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ آل رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بہت عزت و توقیر کرتے تھے اور انھیں اپنے بیٹوں و خاندان پر ترجیح
[1] مسند أحمد ؍ الموسوعۃ الحدیثیۃ حدیث نمبر (۱۳۲۸) یہ حدیث صحیح لغیرہٖ ہے۔ [2] المغنی مع الشرح الکبیر (۱۱؍ ۶۶،۶۷)۔