کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 570
پر کھڑے ہوکر کہنے لگے: اے ابوبکر ! تم پراللہ کی رحمت نازل ہو، تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب، مونس و غم خوار، معتمد راز دار اور مشیر تھے، تم مسلمانوں میں سب سے پہلے ایمان لائے، تمھارا ایمان سب سے زیادہ خالص اور تمھارا یقین سب سے زیادہ استوار تھا، تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والے اور سب سے بڑھ کر دین کو نفع پہنچانے والے تھے۔ (۲)… عہدفاروقی میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ حکومت فاروقی کی مجلس شوریٰ کے ایک نمایاں ممبر تھے، بلکہ اگر کہا جائے کہ آپ ہی مشیر اول تھے، تو کوئی بے جا نہ ہوگا۔ عمر رضی اللہ عنہ ، علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت فقاہت، اور حکمت کے معترف تھے اور ان کے بارے میں بہترین رائے رکھتے، ان کے بارے میں عمر رضی اللہ عنہ کایہ قول ہے کہ ہم میں سب سے بہتر ین فیصلہ کرنے والے علی(رضی اللہ عنہ ) ہیں ۔ [1] ابن الجوزی لکھتے ہیں کہ ابوبکر و عمر دونوں ہی علی رضی اللہ عنہ سے مشورہ لیا کرتے تھے اور عمر بسا اوقات کہتے تھے: ’’ایسے پیچیدہ معاملات سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں جسے ابوالحسن نہ حل کرسکیں ۔‘‘ [2] مسروق کا بیان ہے: ’’لوگ چھ آدمیوں کے پاس اپنے معاملات ومسائل لے جاتے تھے وہ عمر، علی، عبداللہ، ابوموسیٰ، زید بن ثابت اور اُبی بن کعب رضی اللہ عنہم اجمعین تھے‘‘ اور کہا کہ ’’میں نے اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو علم میں آزمایا تو معلوم ہوا کہ چھ لوگوں پر ان کے علوم کی انتہا ہے۔ وہ عمر، علی، عبداللہ، ابو درداء، اُبی بن کعب اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں ، پھر ان چھ کے درمیان میں نے مقابلہ کیا تو دیکھا کہ صرف دو کے علم پر بقیہ لوگوں کے علم کی انتہا ہے، وہ علی اور عبداللہ رضی اللہ عنہما ہیں ۔‘‘[3] عدالتی معاملات ۱۔ ایک پاگل عورت کا معاملہ: ابی ظبیان جنبی سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس ایک عورت پیش کی گئی جس نے زنا کرلیا تھا، آپ نے اسے رجم کرنے کا حکم دے دیا، لوگ اسے رجم کرنے جارہے تھے کہ راستے میں علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوگئی، آپ نے پوچھا: اس کاکیا معاملہ ہے ؟لوگوں نے بتایا کہ اس نے زناکیا ہے اور عمر رضی اللہ عنہ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا ہے، علی رضی اللہ عنہ نے عورت کو ان سے چھڑا لیا اور سب کو عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا، وہ سب واپس گئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: کیوں لوٹ آئے؟ انھوں نے کہا: علی رضی اللہ عنہ نے ہمیں واپس لوٹا دیا ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے سن کر کہا:
[1] الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب ص (۱۱۰۲) المعرفۃ والتاریخ (۱؍ ۴۸۱)۔ [2] فضائل الصحابۃ، حدیث نمبر (۱۱۰۰) اس کی سند ضعیف ہے۔ [3] علل الحدیث ومعرفۃ الرجال ؍ علی بن المدینی ص (۴۲، ۴۳) نیز صحیح البخاری، حدیث نمبر، (۴۴۸۱) عبداللہ سے مراد ابن مسعود ہیں ۔