کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 57
۳۔ فتح ونصرت کی بشارت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو بہ پہلو قتال:
جنگی اسباب اختیار کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رب العالمین کی طرف متوجہ ہوئے اور فتح ونصرت کی دعا میں لگ گئے، آپ اپنی دعا میں یہ فرما رہے تھے:
((اللہم أنجزلی ما وعدتنی ، اللہم ان تہلک ہذہ العصابۃ من اہل الاسلام فلا تعبد فی الارض ابدا))
’’الٰہی تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے پورا کر دکھا، اگر مسلمانوں کا یہ گروہ ہلاک ہو گیا تو زمین میں کبھی تیری عبادت نہ ہو گی۔‘‘
آپ برابر دعا و استغاثہ میں لگے رہے، یہاں تک کہ چادر مبارک آپ کے شانہ مبارک سے گر گئی، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے چادر مبارک تھام لی اور شانہ مبارک پر دوبارہ ڈال دی اور عرض کرنے لگے: اے اللہ کے رسول! کافی ہو گیا، اللہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا۔[1]
اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
﴿ إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ ﴾ (الانفال: ۹)
’’(اس وقت کو یاد کرو) جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تمھاری سن لی۔‘‘
۴۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور جنگی قیدی:
سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ جب مسلمانوں نے بدر میں کفار کو گرفتار کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا:
ان قیدیوں کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے؟
تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے اللہ کے رسول! یہ سب چچیرے بھائی اور خاندان وکنبے ہی کے لوگ ہیں ، میری رائے ہے کہ آپ انھیں فدیہ لے کر چھوڑ دیں ، اس طرح کفار کے مقابلہ کے لیے ہمیں قوت حاصل ہو گی اور امید ہے کہ اللہ انھیں ہدایت دے دے اور یہ مسلمان ہو جائیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن خطاب! تمھاری رائے کیا ہے؟
عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: واللہ میری وہ رائے نہیں جو ابوبکرؓ کی ہے، میری رائے تو یہ ہے کہ انھیں آپ ہمارے حوالے کر دیں اور ہم ان کی گردنیں اڑا دیں ۔ عقیل بن ابی طالب کو علیؓ کے حوالہ کریں وہ اس کی گردن ماریں اور فلاں کو (جو عمر رضی اللہ عنہ کا قریبی تھا) میرے حوالہ کریں اور میں اس کی گردن ماردوں ۔ یہ سب کفر کے لیڈر اور قائدین ہیں ۔
[1] مسلم: الجہاد، باب الامداد بالملائکۃ ببدر: ۳/۱۳۸۴، ۱۷۶۳۔