کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 569
خوشگوارتعلقات میں پائداری کو اس پہلو سے بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ اسماء بنت عمیس ہی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی حقیقت میں دیکھ بھال اور عیادت کرنے والی تھیں اور جس دن فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی اس دن پورا مدینہ مردوں و عورتوں کی آہ و بکا سے ہل گیا اور وفات نبوی کی طر ح اس دن بھی سب لوگوں کے ہوش اڑگئے۔ ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما علی رضی اللہ عنہ کے پاس تعزیت میں یہ کہتے ہوئے تشریف لائے اے ابوالحسن: ہم لوگوں کے پہنچنے سے پہلے دختر رسول کی نمازجنازہ نہ پڑھ لینا۔ [1] سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات ۳ رمضان ۱ ۱ھ بروز سہ شنبہ ہوئی، زین العابدین علی بن حسین سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: مغرب اور عشاء کے درمیان فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی، ان کے جنازے میں ابوبکر، عمر، عثمان، زبیر اور عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم تشریف لائے، جب جنازے کی نماز پڑھنے کا وقت ہوا تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابوبکر!آگے بڑھیں ، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابو الحسن آپ کے ہوتے ہوئے؟ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں ، اللہ کی قسم! آپ کے علاوہ کوئی دوسرا ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھائے گا۔ چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی، اور رات کے وقت تدفین عمل میں آئی اور ایک روایت میں اس طرح ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ پڑھائی، اور چار تکبیریں کہیں ۔ [2]اور صحیح مسلم کی روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ پڑھائی اور یہی راجح روایت ہے۔ [3] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے موقع پر: سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد، خلیفہ کے انتخاب کے لیے جن لوگوں سے صلاح مشورہ کیا تھا ان میں علی رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے اور ان کی رائے تھی کہ ابوبکر کے بعد عمر فار وق کو خلیفہ بنایا جائے۔[4] چنانچہ جب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت ہوا اور موت سامنے آکھڑی ہوئی تو آپ کی زبان مبارک سے اس دنیا میں جو آخری کلمات نکلے وہ اس قرآنی آیت کی تلاوت تھی: ﴿ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ ﴾ (یوسف:۱۰۱) ’’مجھے مسلمان ہونے کی حالت میں فوت کر اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملادے۔ ‘‘ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر سے پورا مدینہ تھرّا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آہ وبکا میں ڈوبی ہوئی آج کی غمگین شام سے زیادہ تکلیف دہ لمحات مدینہ نے کبھی نہ دیکھے تھے۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ روتے ہوئے جلدی جلدی ((إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ)) پڑھتے ہوئے آگے بڑھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھرکے دروازے
[1] الشیعۃ وأہل البیت ص (۷۷) کتاب سلیم بن قیس ص (۲۵۵)۔ [2] المختصر من کتاب الموافقۃ ص: (۶۸) اس حدیث کی سند میں ضعف ہے۔ [3] صحیح مسلم، حدیث نمبر (۱۷۵۹)۔ [4] صفۃ الصفوۃ (۲؍۱۰۹، ۱۱۰) مختصر الاثنا عشریۃ ص (۳۴)۔