کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 568
رہی تھیں کیونکہ وہ مصیبت تمام مصائب پر بھاری تھی، اسی طرح آپ اپنی اس سخت بیماری سے پریشان تھیں جس نے آپ کو صاحب فراش بنادیا تھا، آپ کسی بھی چھوٹے بڑے معاملہ میں شرکت کرنے سے مجبور تھیں ، چہ جائے کہ خلیفۃ المسلمین سے ملاقات کرنے جاتیں جو کہ ہر وقت امت کے معاملات اور خاص طور پر اس وقت جنگ ارتداد کے مسائل میں مشغول اور الجھا ہوا تھا۔ مزید برآں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کے مطابق آپ اس حسین ترین لمحے کے انتظار میں تھیں جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بتایا تھا کہ میرے اہل میں تم سب سے پہلے مجھ سے ملاقات کرو گی۔[1] بھلا جو شخص فاطمہ رضی اللہ عنہا جیسا علم ویقین رکھتا ہو وہ امور دنیا کی اتنی پرواہ کیونکر کرسکتا ہے، علامہ عینی نے مہلب کا کتنا عمدہ قول نقل کیا ہے کہ کسی بھی راوی سے ایسی روایت نہیں ملتی کہ دونوں ملے ہوں اور ایک دوسرے سے سلام نہ کیا ہو، انھوں نے دیگر مشاغل سے کٹ کر اپنے گھر رہنے کو ترجیح دی جسے راوی نے ’’ہجران‘‘ قطع تعلقی سے تعبیر کردیا۔[2] حقیقت یہ ہے کہ ابوبکر صدیق اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہما کے درمیان مضبوط اور خوشگوار تعلقات تھے، اس کی دلیل یہ ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیوی اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا ہی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی جان لیوا بیماری میں ان کی عیادت اور تیمارداری کرتی تھیں اور ان کی زندگی کی آخری سانس تک ان کے ساتھ ر ہیں ، انھیں غسل دلانے اور جنازہ تیار کرنے میں برابر شریک رہیں ، علی رضی اللہ عنہ بذات خود فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عیادت تو کرتے ہی تھے لیکن اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا ان کی متعاون ہوتی تھیں ، یہی وجہ تھی کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنی تکفین وتدفین اور جنازہ کے اعلان کے متعلق اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کوکچھ وصیتیں بھی کی تھیں اور اسماء نے ان پر عمل بھی کیا۔[3] چنانچہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے کہا تھا کہ عورتوں کے جنازہ پرڈالا جانے والا کپڑا جس سے عورت کی جسمانی ساخت نمایاں ہوتی ہے میں اسے نا پسند کرتی ہوں ، اسماء نے کہا: اے دختر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں آپ کو ایک ایسی چیز نہ دکھاؤں جو حبشہ والوں کے یہاں ہوتی ہے، پھر چند ہری ٹہنیاں منگوائیں اور اسے موڑکر کمان دار تابوت بنادیا، پھر اس کے اوپر چادر ڈال دیا، فاطمہ رضی اللہ عنہا اسے دیکھ کر کہنے لگیں ، یہ کتنا عمدہ اور خوش نما ہے، اس سے عورتوں اور مردوں کے جنازے میں تمیز ہوجایا کرے گی۔[4] ابن عبدالبر رحمہ اللہ کا بیا ن ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا مسلمانوں میں پہلی وہ خاتون ہیں جن کی لاش کو لکڑی کے تابوت میں چادر سے ڈھانپا گیا پھر زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی غافل نہ تھے بلکہ علی رضی اللہ عنہ سے برابر دختر رسول کے حالات معلوم کرتے رہتے تھے، چنانچہ جب فاطمہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوئیں تو علی رضی اللہ عنہ مسجد میں پانچوں وقت کی نماز پڑھنے آیا کرتے تھے، ایک دن نمازسے فارغ ہوئے تو ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما نے ان سے پوچھا: دختررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کیسی ہے؟ اسی طرح
[1] صحیح مسلم، حدیث نمبر (۲۴۵۰)۔ [2] أباطیل یجب أن تمحیٰ من التاریخ ص: (۱۰۸)۔ [3] الشیعۃ وأھل البیت ص (۷۷)۔ [4] الاستیعاب(۴؍۳۷۸)۔