کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 567
حدیث میں نفی اورمزید معلومات سے خاموشی ہے، جب کہ شعبی کی روایت میں اثبات و مزید معلومات ہیں ، لہٰذا علمائے اصول کے فن وضابطہ کے لحاظ سے اثبات کو نفی پر تقدم حاصل ہے۔ ایسا اس لیے کہ ممکن ہے ثابت کرنے والے کو ایسی بعض معلومات کا زیادہ علم ہو جو نفی کرنے والے کو نہیں ہے، خاص طور پر اس طرح کے مسئلہ میں ، چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عیادت کے لیے جانا کوئی ایسا عظیم حادثہ نہ تھا کہ جس کا لوگوں میں چرچا ہونا ضروری ہو اور سب لوگ اس کو جان ہی لیں ، بلکہ یہ ایک عام بات تھی جو موقع پرنہ رہنے والوں سے پوشیدہ ہوسکتی ہے، اور جو موقع پر حاضر تھے انھوں نے اس وقت اس پرخاص توجہ اس لیے نہ دی کہ اس کے ذکر کرنے کی کوئی اہم ضرورت نہ تھی، بہرحال علمائے اسلام ومحققین کا ماننا ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے قصد اً ابوبکر رضی اللہ عنہ سے قطع کلامی کبھی نہ کی، آپ کی ذات اس سے پاک صاف ہے، اس لیے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن سے زیادہ کسی مسلمان سے قطع کلامی کو حرام قرار دیا ہے، سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے گفتگو اس لیے نہیں کی کہ انھیں ایسی کوئی ضرورت پیش نہ آئی۔ [1]
امام قرطبی، عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کی تشریح کے سیاق میں لکھتے ہیں : فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنی خانگی مشغولیت اور خانہ نشینی کی وجہ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے زیادہ دنوں تک ملاقات نہیں کرسکیں ، اسی چیز کو راویوں نے ’’ہجران‘‘ قطع کلامی سے تعبیر کردیا، ورنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
((لَا یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ یَّھْجُرَ أَخَاہُ فَوْقَ ثَـلَاثٍ۔))[2]
’’کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ اپنے مسلمان بھائی کوتین دن سے زیادہ چھوڑ دے۔‘‘
سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بخوبی جانتی تھیں کہ تعلقات کی دنیا میں کیا حلال اور کیا حرام ہے، بھلا ان سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کریں گی، جب کہ وہ جگر گوشہ رسول اور خواتین جنت کی سردار ہیں ۔ [3]
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’فاطمہ اور ابوبکر رضی اللہ عنہما کی قطع تعلقی کا جو ذکر ملتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ملاقات سے کھینچی کھینچی رہنے لگیں اور یہ انداز قطع تعلقی کی اس حرمت میں شامل نہیں ہے جس میں سلام و کلام بند ہوجاتا ہے، اور ملاقات کے وقت ایک دوسرے سے اعراض کیا جاتا ہے اور حدیث میں ’’فَلَمْ تُکَلِّمْہُ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ پھر وراثت کے سلسلے میں ان سے گفتگونہ کی، یاد ل میں کچھ خلش ہونے کے ناطے ابوبکر سے اپنی کسی ضرورت کا مطالبہ نہ کیا اور نہ ہی ملاقات کرنے کی ضرورت محسوس کی تاکہ گفتگو کا کوئی موقع نکلے۔ کہیں بھی اس طرح کی کوئی روایت نہیں ملتی کہ دونوں کی ملاقات ہوئی ہو اور ایک دوسرے کو سلام نہ کیاہو، یا بات چیت نہ کی ہو،[4] بلکہ ان تمام باتوں سے ہٹ کر فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے والد محترم (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جدائی کا غم جھیل
[1] الانتصار للصحب و الآل ص (۴۳۴)۔
[2] صحیح البخاری، حدیث نمبر (۶۰۷۷)۔
[3] المفہم ؍ القرطبی (۱۲؍۷۳)۔
[4] شرح صحیح مسلم (۱۲؍۷۳)۔