کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 565
سے پیدا ہونے والی اولاد علی کی نسلوں نے بھی کیا۔ امام بیہقی اپنی سند سے فضیل بن مرزوق سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا، زید بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب نے کہا:سنو! اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی جگہ پر میں ہوتاتو فدک کی زمین کے متعلق میں بھی وہی فیصلہ دیتا جو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دیا تھا۔[1]
اسی طرح ابو العباس قرطبی نے جملہ اہل بیت کا اتفاق نقل کیا ہے کہ وہ لوگ فدک کی زمین کی ملکیت کے کبھی خواہاں نہ ہوئے، بلکہ وہ ہمیشہ اس کی آمدنی کو اللہ کے راستے میں خرچ کرتے رہے، آپ نے اہل بیت کے ذکر میں سب سے پہلے علی رضی اللہ عنہ ، پھر آپ کی اولاد اور پھر عباس رضی اللہ عنہ کی اولاد کا ذکر کیا ہے جن کے ہاتھوں میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ کی نگرانی تھی، آپ فرماتے ہیں : ’’جب علی رضی اللہ عنہ نے منصبِ خلافت سنبھالا تو ابوبکر، عمر، اور عثمان رضی اللہ عنہم کی عہد خلافت میں جاری کسی نظام میں تبدیلی نہیں کیا، اس کی ملکیت سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی، اور نہ ہی اس کی کوئی جائداد تقسیم کی، بلکہ خلافت کے املا ک کے جو مصارف پہلے سے چلے آرہے تھے انھیں میں خرچ کیا، اس کے بعد خلافت حسن بن علی کے ہاتھوں میں منتقل ہوئی، پھر سلسلہ وار حسین بن علی، پھر علی بن حسین پھر حسین بن حسین، پھر زید بن حسین پھر عبداللہ بن حسین پھر آل عباس کے ہاتھوں میں منتقل ہوتی رہی، جیساکہ ابوبکر البرقانی نے اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ بہرحال یہ سب اہل بیت کے بزرگ شرفاء ہیں اور یہ لوگ شیعہ اور ان کے ائمہ حضرات کے نزدیک سب سے زیادہ معتمد اور قابل قدر ہیں ، لیکن ان میں سے کسی سے کوئی ایک بھی روایت نہیں ملتی کہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ کو اپنی وراثت اور ملکیت سمجھا ہو، لہٰذا اگر شیعہ حضرات کا دعویٰ سچ ہے تو علی رضی اللہ عنہ یا آپ کے اہل بیت میں سے کسی کو اپنا حق ضرور لے لینا چاہیے تھا، کیونکہ اب حکومت انھیں کے ہاتھوں میں تھی ورنہ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ دعویٰ صحیح نہیں ۔ [2]
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’روافض نے اس مقام پر بڑی جہالت ونادانی کا ثبوت دیا ہے اور ایسی کذب بیان کی ہے جس کی حقیقت سے وہ خود ہی ناواقف ہیں ، انھوں نے غیر ضروری باتوں میں خود کو الجھا رکھا ہے، اگر یہ لوگ معاملات کی حقیقت سمجھنے کی کوشش کرتے تو صدیق کی فضیلت کا ضرور اعتراف کرتے اور آپ کی دلیل ومعذرت کو ضرور قبول کرتے، لیکن کیا کیا جائے یہ عجیب قوم ہے، متشابہ اور لوچ لچر دلائل سے استدلال کرتی ہے اورصحابہ وتابعین اورہر دوراورہر جگہ کے معتبر علمائے اسلام کے یہاں جو باتیں مسلَّم انھیں چھوڑ دیتی ہے۔‘‘ [3]
[1] تاریخ المدینۃ ؍ ابن شبۃ (۱؍ ۲۰۰) البدایۃ والنہایۃ (۵؍۲۵۳)۔
[2] المفہم ؍ القرطبی (۳؍۵۶۴)۔
[3] البدایۃ والنہایۃ (۵؍۲۵۱،۲۵۳)۔