کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 564
دلیل ظنی ہوگی جو کہ قطعی کے معارض نہیں ہوسکتی، کیونکہ ظنی قطعی کی معارض نہیں ہوتی۔ اسی طرح ہماری دلیل کے قطعی ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ’’ہم انبیاء کا کوئی وارث نہیں ہوتا‘‘ والی روایت کو مختلف اوقات میں اور مختلف مجالس میں کئی صحابہ نے روایت کیا ہے اور کسی نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا، بلکہ اسے قبول کیا اور سچ جانا اور یہی وجہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے کسی نے میراث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالبے پر اصرار نہیں کیا، نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا (عباس رضی اللہ عنہ ) نے اس مطالبہ پر اصرار کیا، بلکہ اگر کسی نے مطالبہ کیا اور اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سنایا گیا تو وہ اپنے مطالبہ سے فوراً باز آگیا۔ علی رضی اللہ عنہ کی دور خلافت تک تمام خلفائے راشدین کے عہد میں یہی حالت برقرار رہی، کسی نے نہ کوئی تبدیلی کی اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ترکہ تقسیم کیا۔ [1] امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ عنہ فرماتے ہیں : عثمان ذی النورین رضی اللہ عنہ کے بعد علی رضی اللہ عنہ نے منصب خلافت سنبھالا، فدک وغیرہ کی زمینیں آپ کی حکومت کی زیرنگرانی ہوگئیں ، لیکن آپ نے اس میں سے کچھ بھی نہ اولاد فاطمہ کو دیا، نہ ازواج مطہرات کو دیا اور نہ ہی عباس کی آل اولاد کو۔پس اگر گزشتہ تینوں خلفاء کے دور میں یہ چیز ظلم تھی اور اب علی رضی اللہ عنہ اسے مٹانے کی طاقت رکھتے تھے تو آپ کے لیے معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی فوج سے لڑنے کے بالمقابل یہ کام آسان اور مقدم تھا کہ گزشتہ تین ادوار سے چلے آرہے ظلم کا خاتمہ کریں ، کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ وہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی فوج سے جنگ تو چھیڑیں کہ شر و فساد کو بھڑکنے کا موقع ملے۔ اور حق حق دار رسید کے تحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محروم ورثاء کو ان کا تھوڑا سا مال نہ دلائیں ؟ جب کہ یہ بہت معمولی بات تھی۔[2] عباسی خلیفہ ابو العباس السفاح نے اسی مسئلہ میں اپنے بعض مناظرین کے خلاف خلفائے راشدین کے اجماع سے دلیل قائم کی تھی، علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ عنہ نے اپنی کتاب ’’تلبیس ابلیس‘‘ میں اس واقعہ کو نقل کیا ہے کہ ’’سفاح کے بارے میں ہمیں معلوم ہوا کہ ایک دن انھوں نے خطبہ دیا، دوران خطبہ ایک آدمی اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا، میں اولاد علی میں سے ہوں ، اے امیرالمومنین! میرے ظالم کے خلاف میری مدد کیجیے، خلیفہ نے پوچھا تم پر کس نے ظلم کیا ہے؟ اس نے کہا: میں آل علی میں سے ہوں اور ابوبکر نے فاطمہ ( رضی اللہ عنہا ) کو فدک کی زمین وراثت میں نہ دے کر مجھ پر ظلم کیا، خلیفہ نے پوچھا، اور یہ ظلم تم پر ایسے ہو تا رہا ہے؟ اس نے کہا، ہاں ، خلیفہ نے پوچھا، ان کے بعد کون ہوا؟ اس نے کہا، عمر، خلیفہ نے پوچھا، اور انھوں نے بھی یہ ظلم روا رکھا؟ اس نے کہا: ہاں ، خلیفہ نے کہا: ان کے بعد کون ہوا ؟ اس نے کہا، عثمان، خلیفہ نے کہا، اور انھوں نے بھی یہ ظلم روا رکھا؟ اس نے کہا، ہاں ، خلیفہ نے پوچھا: ان کے بعد کون ہوا؟ اب وہ اِدھر اُدھردیکھنے لگا اور بھاگنے کی تاک میں لگ گیا۔ [3] میراث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مسئلہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اجتہاد کی درستگی اور سچائی کا اعتراف خود فاطمہ رضی اللہ عنہ کے بطن
[1] منہا ج السنۃ ؍ ابن تیمیہ (۴؍۲۲۰)۔ [2] منہاج السنۃ ؍ ابن تیمیہ (۶؍۳۴۷)۔ [3] تلبیس إبلیس ص (۱۳۵)۔