کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 563
اسی طرح کلینی، صدوق اور طوسی نے اپنی اپنی سند سے باقر سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا: ’’علی علیہ السلام ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کے وارث ہوئے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ کی وارث ہوئیں ۔‘‘ [1] اتنا ہی نہیں بلکہ دوسرے مقامات پر بعض روافض مصنّفین نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بھی وراثت سے محروم کیا ہے، ان کا عقیدہ ہے کہ عورتیں زمین اور غیر منقولہ جائداد کی وارث نہیں بن سکتیں ، اس سلسلے میں ان کے یہاں متعدد روایات منقول ہیں ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ ابو جعفر صادق نے فرمایا: عورتیں زمین اور غیر منقولہ جائداد کی وارث نہیں ہوسکتیں ۔[2] صدوق اپنی سند سے میسر (راوی) سے روایت کرتے ہیں کہ میسر کا بیان ہے کہ میں نے ابوجعفر صادق سے پوچھا: عورتوں کو میراث میں کیا مل سکتاہے؟ تو آپ نے فرمایا: زمین اور غیر منفقولہ جائداد میں عورتوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔[3] اس فتویٰ اور عقیدہ کے اعتبار سے یہ بات صاف ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا مطلوبہ میراث کی مستحق نہ تھیں ، چہ جائے کہ اس کے لیے اس حدیث سے استدلال کیا جائے ’’نَحْنُ مَعَاشَرُ الْاَنْبِیَائِ لَانُوْرَثُ‘‘[4] کیونکہ جب عورت زمین اور غیر منقولہ جائداد کی وارث نہیں ہوسکتی تو فاطمہ رضی اللہ عنہا جو کہ ایک خاتون تھیں ۔ان کے لیے رافضی عقیدہ کے مطابق بھلایہ کیوں کر درست ہوسکتا ہے کہ فدک کی زمین میں وراثت کا مطالبہ کریں جو کہ غیر منقولہ جائداد تھی۔[5] پس روافض کی یہ سب کھینچاتانی ان کی جہالت، کذب اور تناقض کی دلیل ہے۔ [6] رہا روافض کا یہ دعویٰ کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے گواہوں کا مطالبہ کیا تھا، تو آپ نے علی اور ام ایمن رضی اللہ عنہما کو گواہی کے لیے پیش کیا، لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کی گواہی تسلیم نہیں کیا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سب باتیں مکمل طور پر جھوٹ اور فریب ہیں ۔ حماد بن اسحق کا کہنا ہے کہ جو لوگ بیان کرتے ہیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فدک کی زمین کامطالبہ کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ان کو جاگیر میں دیا تھا اور ابوبکر نے علی رضی اللہ عنہ کی گواہی اس لیے نہ مانی کہ وہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے شوہر تھے، تو یہ سب باتیں بے بنیاد اور فرضی داستان ہیں ، کسی بھی صحیح ومستند روایت سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کا یہ دعویٰ ثابت نہیں ہے۔[7] سنت اور اجماع سے دلیل کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو اپنا وارث نہیں بنایا: امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کو وارث نہ بنانا صحیح وقطعی سنت اور اجماع صحابہ سے ثابت ہے اور یہ دونوں قطعی دلیل ہیں ، لہٰذا اپنے ظن پر مبنی عمومی مفہوم سے انھیں ٹکرانا اور دونوں میں تعارض پیدا کرنا جائز نہیں ہے اور اگر عمومی مفہوم کودرست مان لیا جائے تو اس میں تخصیص سے کوئی چیز مانع نہیں ہے، بہرصورت یہ
[1] الکافی ؍ الکلینی (۷؍۱۳۷) العقیدۃ فی أہل البیت (۴۵۱) ۔ [2] الکافی ؍ الکلینی (۷؍۱۳۷)۔ [3] الشیعۃ وأھل البیت ص (۸۹)۔ [4] صحیح مسلم حدیث نمبر (۱۷۶۸)۔ [5] الشیعۃ وأہل البیت ص (۹۸)۔ [6] العقیدہ فی أہل البیت ص ( ۴۵۲)۔ [7] منہاج السنۃ (۴؍ ۲۳۶۔ ۲۳۸)۔