کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 562
اپنے ہاتھوں کی کمائی کھاتے تھے۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں مذکور ہے۔[1] اور زکریا علیہ السلام ایسے بھی نہ تھے کہ اپنی ضرورت وخوراک سے زیادہ مال بچا کر ذخیرہ اندوزی کرتے رہے ہوں کہ اس کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ سے اولاد کی شکل میں وارث کا مطالبہ کیا ہو، پس تمام قرائن و توضیحات ا س با ت کی دلیل ہیں کہ مذکورہ دونوں آیات میں نبوت کی وراثت اور اس کی ذمہ داریاں سنبھالنا مراد ہے۔[2] امام قرطبی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ’’زکریا علیہ السلام نے ایسی اولاد کے لیے دعا نہیں کی تھا جو آپ کے مال کا وارث بنے اس لیے کہ انبیاء کے مال کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ آیت کریمہ کی یہی درست اور راجح تفسیر ہے، بلکہ زکریا علیہ السلام نے ایسی اولاد مانگی تھی جو ان کے’’علم‘‘ اور نبوت کا وارث ہو، نہ کہ مال کا،کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: ((إِنَّا مَعْشَرَ الْاَنْبِیَائِ لَا نُوْرَثُ، مَا تَرَکْنَاہُ صَدَقَۃٌ۔))[3] ’’ہم انبیاء کی جماعت کا کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو کچھ چھوڑیں ، صدقہ ہے۔‘‘ مختصر یہ کہ یہ حدیث، فرمان الٰہی ﴿وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ﴾ کی ماثور تفسیر اور زکریا علیہ السلام کے قول: ﴿ فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا ﴿٥﴾ يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ﴾کی صریح ترجمانی ہے اور اس مسئلہ میں وارد شدہ عمومی احکامات کی تخصیص ہے۔ سلیمان علیہ السلام نے بھی اپنے باپ داؤود علیہ السلام سے وراثت میں مال نہیں حاصل کیا تھا، بلکہ انھیں علم اور حکمت وراثت میں ملی تھی، جیسے کے یحییٰ علیہ السلام کو آل یعقوب سے یہی چیز یں وراثت میں ملی تھیں روافض کے علاوہ بقیہ علماء مفسرین نے یہی تفسیر کی ہے۔ [4] اس مقام پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وجوب میراث کے مسئلہ میں روافض تناقض کا شکار ہیں اور خود اپنی دلیل کی مخالفت کرتے ہیں ، اس کی تفصیل یہ ہے کہ میراث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا وارث صرف فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ٹھہراتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازاواج مطہرات اور عصبہ (اقرباء) کی شکل میں دیگر ورثاء کو اس سے محروم کردیتے ہیں ، اس طرح جن آیات کے عمومی خطاب سے اپنے مخالف پر حجت قائم کرتے ہیں وہ خود ہی ا س کی مخالفت کرتے ہیں ، چنانچہ صدوق نے اپنی سند سے ابو جعفر الباقر سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا’’نہیں ‘‘ ہر گز نہیں ۔ اللہ کی قسم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وارث صرف فاطمہ تھیں ، عباسؓ، علیؓ آپ کے وارث نہیں تھے۔ علی علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاہتھیار وغیرہ اس وجہ سے لے لیا تھا کہ آپ کی طرف سے قرض سے ادا کیا تھا۔ [5]
[1] صحیح مسلم، حدیث نمبر (۲۳۷۹)۔ [2] منہاج السنۃ (۴؍۲۲۵) البدایۃ والنہایۃ (۵؍۲۵۳)، العقیدۃ فی أہل البیت، ص : ۴۴۸ [3] صحیح مسلم (۱۷۵۸)۔ [4] تفسیر قرطبی (۱۱؍ ۳۵۔۴۵)۔ [5] من لا یحضر ہ الفقیۃ(۴،۱۹۰، ۱۹۱) العقیدۃ فی أہل البیت ص (۴۵۱)۔