کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 561
ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ﴾ ( فاطر:۳۲)
’’پھر ہم نے اس کتاب کے وارث اپنے وہ بندے بنائے جنھیں ہم نے چن لیا۔‘‘
اور فرمایا:
﴿ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ ﴿١٠﴾ الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴾ (المؤمنون:۱۰-۱۱)
’’یہی لوگ ہیں جو وارث ہیں ۔ جو فردوس کے وارث ہوں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔‘‘
ان کے علاوہ بھی کئی آیات ہیں جن میں انھیں معنوں میں وارث اور میراث کا لفظ وارد ہے۔ بہرحال مذکورہ
دلائل کی روشنی میں جب میراث کا لفظ صرف مال وجائداد کے لیے خاص نہیں رہا، تو اللہ کے فرمان آیت﴿وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ﴾اور ﴿ يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ ﴾ کے بارے میں بھی یہی کہا جائے گا کہ وہاں میراث کی جنس مراد ہے، نہ کہ صرف مال کی وراثت۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ داؤد علیہ السلام کے پاس سلیمان علیہ السلام کے علاوہ کئی اولادیں تھیں ، اگر مال کا وارث بنانا مقصود ہوتا تو صرف سلیمان علیہ السلام کو خاص نہ کرتے، پس واضح ہے کہ اس وراثت سے مراد علم و نبوت کی وراثت ہے نہ کہ مال کی، علاوہ ازیں ایک قابل غور پہلو یہ بھی ہے کہ یہ آیت کریمہ سلیمان علیہ السلام کی مدح اور ان پر اللہ کی خاص نعمت کے اظہار کے لیے بیان کی گئی ہے اور وراثت میں صرف مال وجائدا د کا ملنا کوئی قابل تعریف چیز نہیں ہے، کیونکہ وراثت میں مال وجائداد تو ہر انسان کو ملتی ہے، تو معلوم ہوا کہ یہاں وارثت کی خاص نوعیت مراد ہے۔
بالکل یہی معاملہ اللہ کے فرمان ﴿ يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ ﴾ کا بھی ہے یعنی یہاں مال کی وراثت مراد نہیں ہے، کیونکہ اگر مال کی وراثت مان لی جائے تو صرف یحییٰ علیہ السلام آل یعقوب کے مال کے وارث نہیں ہوں گے بلکہ آپ کے علاوہ آل یعقوب کی دوسری اولادیں اور بقیہ ورثہ آل یعقوب کی جائداد کے وارث ہوں گے۔ (لہٰذا دعا کا فائدہ نہیں ) [1]
اسی طرح زکریا کا یہ کہنا کہ ﴿ وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي ﴾ مجھے اپنے مرنے کے بعد اپنے قرابت داروں کا ڈر ہے، اس میں بھی اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ یہاں مال کی وراثت مراد ہے، اس لیے کہ زکریا علیہ السلام کو اپنی موت کے بعد اپنے اقرباء سے یہ خوف نہیں تھا کہ وہ آپ کا مال لے لیں گے۔ کیونکہ یہ ڈرنے کی کوئی چیز نہیں ہے، ایسا عموماً ہوتا ہے، اور پھر زکریا علیہ السلام بڑے دولت مند بھی نہ تھے، بلکہ بڑھئی کا کام کرتے تھے اور
[1] منہا ج السنۃ (۴؍ ۲۲۲۔ ۲۲۴)۔