کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 560
بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء علیہم السلام کا کوئی وارث نہیں ہوتا، اس حکم کی تخصیص ان کے لیے درحقیقت اللہ کی طرف سے ایک حفاظت کا انتظام ہے تاکہ کوئی شخص ان کی نبوت کو یہ کہہ کر داغ دار نہ کرسکے کہ انبیاء نے دنیا طلب کی اور اسے اپنے وارثوں کے لیے چھوڑ گئے اور دوسرے انسان چونکہ نبی نہیں ہیں کہ ان کی نبوت داغ دار ہونے کا اندیشہ ہو اس لیے ا نہیں کوئی ممانعت نہ ہوئی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بنی صلی اللہ علیہ وسلم کو امی بنا کر، لکھنے اور شعر گوئی سے محفوظ رکھ کرآپ کی نبوت کو اعتراضات و اشکالات سے پاک کیا، جبکہ دوسرے لوگوں کو اس پاکیزگی کی ضرورت نہ تھی۔ [1] حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ روافض کے استدلال کی تردید اس طرح کرتے ہیں :رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ ایسی خصوصیات ملیں جن میں دوسرے انبیاء علیہم السلام آپ کے شریک نہیں رہے، لہٰذا اگر یہ مان لیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دیگر انبیاء کے وارث ہوتے ہیں ۔ حالانکہ ایسی بات نہیں ہے تو بھی صحابہ کرام اور ان میں خاص طور سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جو حدیث بیان کی ہے وہ اس تخصیص کی وضاحت ہے کہ یہ حکم صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے دوسرے انبیاء کے لیے نہیں ۔[2] اس طرح روافض کا یہ دعویٰ یکسر باطل ہوجاتا ہے کہ یہ حدیث آیت میراث کے خلاف ہے۔ یہ حدیث دیگردو آیات کے بھی خلاف ہے: ۱: ﴿وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ﴾ (النمل: ۱۶) ’’اور سلیمان داؤد کا وارث بنا ۔‘‘ ۲: اور زکریا علیہ السلام کے بارے میں اللہ نے فرمایا: ﴿ وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا ﴿٥﴾ يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ ۖ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا ﴾ (مریم:۵-۶) ’’اور بے شک میں اپنے پیچھے قرابت داروں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی شروع سے بانجھ ہے، سو مجھے اپنے پاس سے ایک وارث عطا کر۔ جو میرا وارث بنے اور آل یعقوب کا وارث بنے اور اے میرے رب! اسے پسند کیا ہوا بنا۔‘‘ روافض کا استدلال یہ ہے کہ میراث کا مطلب ہے جائداد واموال کا ترکہ اور مذکورہ آیات کی تفسیر میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہاں مال نہیں علم کی وراثت مراد ہے۔ [3] روافض کی اس دلیل اور استدلال کا جواب یہ ہے کہ ’’میراث‘‘ کا کلمہ اسم جنس ہے اور اس کے ماتحت مختلف انواع ہیں ، پس میراث کا لفظ علم، نبوت، بادشاہت اور منتقل ہونے والی دیگر چیزوں کی وراثت کے لیے بھی مستعمل
[1] منہاج السنۃ (۴؍۱۹۴،۱۹۵) العقیدۃ فی أہل البیت ص (۴۴۵)۔ [2] البدایۃ والنہایۃ (۵؍۲۵۴)۔ [3] منہاج الکرامۃ ص (۱۰۹) بحوالہ العقیدہ فی أہل البیت، اور الطرائف؍ ابن طاووس ص (۳۴۷)۔