کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 56
سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: میں نے سات غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شرکت کی، اس کے علاوہ دیگر جنگی مہموں میں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ فرمایا کرتے تھے نو (۹) میں شرکت کی، کبھی ابوبکر رضی اللہ عنہ ہمارے امیر ہوتے اور کبھی اسامہ رضی اللہ عنہ ۔[1]
میدان بدر میں
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے غزوۂ بدر میں شرکت کی جو ۲ ہجری میں واقع ہوا۔ اس غزوہ میں آپ نے عظیم کردار ادا کیا جس میں سے اہم ترین یہ ہیں :
۱۔ جنگی مشورہ:
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ قریش کا تجارتی قافلہ بچ کر نکل گیا ہے اور سرداران مکہ جنگ پر مصر ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے اس سلسلہ میں مشورہ لیا۔ سب سے پہلے ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور اچھی گفتگو کی پھر عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور اچھی گفتگو کی۔[2]
۲۔ مرکز قیادت (سائبان) میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں :
جنگ کے لیے اسلامی لشکروں کی صفوں کو ترتیب دینے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرکز قیادت میں واپس آگئے، جو ایک ٹیلے پر جھونپڑا ڈال کر تیار کیا گیا تھا، جہاں سے میدان جنگ سامنے نظر آتا تھا، اس کے اندر آپ کے ساتھ ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی تھے، اور انصاری نوجوانوں کی ایک جماعت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں اس مرکز پر پہرہ دے رہی تھی۔[3]
علی رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس مؤقف کی وضاحت کی ہے، آپ نے لوگوں سے سوال کیا:
سب سے بڑا بہادر کون ہے؟
لوگوں نے جواب دیا: امیرالمومنین! آپ ہیں ۔
آپ نے فرمایا: میرا معاملہ تو یہ ہے کہ جو میرے مقابلہ میں آیا میں نے اس سے بدلہ لیا، لیکن سب سے بڑے بہادر ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ ہم نے بدر کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک سائبان بنایا اور کہا: کون آپ کے ساتھ یہاں رہے گا تاکہ کوئی مشرک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک نہ پہنچ سکے۔ اللہ کی قسم ابوبکر رضی اللہ عنہ تلوار لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے رہے، جو مشرک بھی ادھر کا رخ کرتا آپ اس کی طرف بڑھ کر مار بھگاتے، یقینا ابوبکر رضی اللہ عنہ سب سے بڑے بہادر ہیں ۔[4]
[1] البخاری: ۳۹۵۲۔
[2] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: ۲/۴۴۷۔
[3] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: ۲/۲۳۳۔
[4] البدایۃ والنہایۃ: ۳/۲۷۱، ۲۷۲۔