کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 559
اُمَنَائُ، وَالْأَتْقِیَائُ حَصُوْنٌ، وَالْأَوْصَیَائُ سَادَۃٌ وَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ کَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلٰی سَائِرٍ النُّجُوْمِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ، وَإِنَّ الْعُلَمَائَ وَرَثَۃُ الْأَنْبِیَائَ لَمْ یُوَرِّثُوْا دِیْنَاًرا وَلَا دِرْہَمًا وَ ٰلِکْن وَرِّثُوا الْعِلْمَ، فَمَنْ أَخَذَ مِنْہُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ۔))[1] ’’جو شخص علم کی تلاش میں باہر نکلا، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کردے گا، علماء قوم کے امانت دار ہیں ، پر ہیز گار قوم کے قلعے ہیں او صیاء قوم کے سردار ہیں ، عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہی ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کو تمام ستاروں پر، علماء انبیاء کے وراث ہیں ، انبیاء نے وارثت میں درہم ودینار نہیں چھوڑا، البتہ علم کو وراثت میں چھوڑا، جس نے وہ علم سیکھ لیا، وہ پورا حصہ پالیا۔‘‘ ایک روایت میں اس طرح ہے: ((إِنَّ الْعُلَمَائَ وَرَثَۃُ الْأَنْبِیَائِ، وَذٰلِکَ أَنَّ الْأَنْبِیَائَ لَمْ یُوَرِّثُوْا دِرْہَمَا وَلَادیِنْاَرًا، وَإِنَّمَا أَوْرَثُوْا أَحَادِیْثَ مِنْ أَحَادِیْثِہِمْ۔))[2] ’’بے شک علما انبیاء کے وارث ہیں ، اس طرح کہ انبیاء وراثت میں درہم و دینار نہیں چھوڑتے انھوں نے اپنے اقوال واحادیث کو وارثت میں چھوڑا ہے۔‘‘ امام جعفر صادق نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ سے وارثت میں کیا پاؤں گا ؟ آپ نے فرمایا: وہی جو انبیاء نے چھوڑا ہے۔ (یعنی علم) ٭ یہ حدیث آیت میراث: ﴿ يُوصِيكُمُ اللَّـهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ﴾ [3] (النساء :۱۱) کے خلاف ہے۔ روافض کا دعویٰ ہے کہ اللہ نے آیت میراث کا حکم صرف امت کے لیے خاص کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو اس سے مستثنیٰ نہیں کیا۔[4] حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ خطاب ان تمام حضرات کو شامل ہے جو اس خطاب سے مقصود ہیں ، لیکن اس سے یہ لازم اور ضر وری نہیں ہوتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کے مخاطب ہوں ، [5] اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام احکام میں عام انسانوں پر قیاس کرنا درست نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تومو منوں کے لیے ان کی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں ، آپ کے لیے زکوٰۃ وصدقات کو اللہ تعالیٰ نے خاص طور سے حرام کردیا جب کہ آپ کے امتی اس سے مستثنیٰ ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ امتیازات اور خصوصیات ہیں جو دوسروں کی نہیں ہیں ، انھیں خصوصیات میں سے یہ بات
[1] الکافی ؍ الکلینی (۱؍ ۳۲،۳۴)۔ [2] الکافی ؍ الکلینی (۱؍۳۲،۳۴) بصائر الدرجات ؍ الصفار ص (۱۰؍۱۱) الاختصاص المفید ص (۴) دیکھئے: علم الیقین للکاشانی (۲؍۷۴۷، ۷۴۸) بحوالہ العقیدہ لا ہل البیت ص (۴۴۴)۔ [3] اللہ تمھیں تمھاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے‘‘ [4] منہا ج الکرامۃ مع منہاج السنۃ (۴؍ ۱۹۴)۔ [5] منہاج السنۃ (۴؍۱۹۴،۱۹۵)۔