کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 557
لیے سرتسلیم خم کردینے والی خاتون تھیں ۔ امام ابن قتیبہ[1] فرماتے ہیں : ’’میراث نبی کے متعلق فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے جھگڑنا کوئی معیوب بات نہیں ہے، کیونکہ انھیں اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کاعلم نہ تھا، وہ یہی جانتی تھیں کہ جس طرح اولاد یں اپنے باپوں کی جائداد کی وارث ہوتی ہیں میں بھی اسی طرح اپنے ابا کے جائداد کی وارث ہوں ، لیکن جب انھیں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سنائی گئی تو وہ اپنے مطالبہ سے باز آگئیں ۔‘‘ [2] میراث نبوی کے واقعہ کو روافض نے کافی رنگ وروغن لگا کر پیش کیا ہے، صاف سیدھی بات اور واضح وصحیح نصوصِ شریعت سے ہٹ کر اس واقعہ میں خوب خوب مبالغہ آرائی کی ہے اور اس معاملہ کو خلافت سے جوڑتے ہوئے صحابہ کرام اور آل بیت ( رضی اللہ عنہم اجمعین ) کے درمیان اسے اختلاف کی اصل وجہ قرار دیاہے، اور تمام صحابہ کرام پر یہ تہمت لگائی ہے کہ انھوں نے اہل بیت ( رضی اللہ عنہم اجمعین ) پر ظلم کیا، خاص طور سے (ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما ) نے کہ انھوں نے اہل بیت سے خلافت کو غصب کرلیا، ان کے اموال اور حقوق کو ان دونوں نے چھین لیا، روافض اپنے عقیدہ وبیان کے مطابق فدک کی زمین اور فاطمہ کی وراثت سے محرومی کے واقعہ کو اس بات کے لیے سب سے اہم مسئلہ قرار دیتے ہیں کہ ابوبکر صدیق ( رضی اللہ عنہ ) نے خلافت کو غصب کیا اور پھر صحابہ دیگر خلفاء کے ہاتھوں خلافت کو یکے بعد دیگرے منتقل کرتے رہے، ان سب کا مقصد یہ تھا کہ مبادا لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت اہل بیت کے ہاتھوں میں ہونے کی وجہ سے ان کی طرف مائل نہ ہو جائیں اور پھر ان کے ہاتھوں پر بیعت کر کے ہمیں خلافت سے بے دخل کردیں ۔ [3] لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اس مسئلہ میں روافض کی مستند ترین کتابوں کا مطالعہ کرے گا وہ اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ ان کی تمام تر تحریریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے انکار کے لیے کوشاں ہیں : ((نَحْنُ مَعَاشَرُ الْاَنْبِیَائِ لَا نُوْرَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَۃٌ۔))[4] ’’ہم انبیاء کی جماعت کا کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو کچھ چھوڑ کر جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ ‘‘ اس حدیث کی ابطال وتردید کے لیے کوشاں روافض کے چند دلائل کو یہاں ذکر کیا جارہا ہے: یہ حدیث ابوبکر ( رضی اللہ عنہ ) کی من گھڑت ہے: الحِلّی کا کہنا ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر کی من گھڑت بات یعنی: ’’مَا تَرَکْنَاہُ صَدَقَۃٌ‘‘ کو ماننے سے انکار کردیا۔ مزید لکھتا ہے: ’’ابوبکر نے اس سلسلے میں ایسی روایت کا سہارا لیا جس کے وہ تنہا ناقل ہیں ۔‘‘ [5]
[1] شذرات الذھب (۲؍ ۱۶۹)۔ [2] تاویل مختلف الحدیث ص: (۹/۱)۔ [3] العقیدۃ فی أہل البیت بین الإفراط والتفریط ص: (۴۳۵) ۔ [4] صحیح مسلم حدیث نمبر (۱۷۵۸)۔ [5] منہاج الکرامۃ مع منہاج السنۃ (۴؍ ۱۹۳) بحوالہ العقیدۃ فی أہل البیت، ص (۴۴۳)۔