کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 555
’’ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی خلافت میں جن لوگوں سے معاملہ فہمی میں تعاون ومشورہ لیتے تھے ان میں علی بن ابی طالب، عمر بن خطاب، معاذبن جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابت اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم اجمعین پیش پیش تھے۔‘‘ [1]
تو دیگر بزرگ صحابہ سے پہلے علی رضی اللہ عنہ کا تذکرہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ باہم خوشگوار میل ملاپ رکھتے تھے اور علی رضی اللہ عنہ کو مشورہ اور قضاء وغیرہ میں پیش پیش رکھتے۔[2] چنانچہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس یہ تحریر بھیجی کہ عرب کے ایک علاقے میں انھیں ایک ایسا آدمی ملا ہے جو عورتوں کی طرح نکاح کرتا ہے۔ (یعنی ہم جنس پرستی کرتا ہے) تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس سلسلے میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ لیا، ان میں علی رضی اللہ عنہ بھی تھے، آپ کا مشورہ یہ تھا کہ یہ ایسا گناہ ہے جسے روئے زمین پر ایک امت (قوم لوط) کے علاوہ کسی نے نہیں کیا اور اللہ نے اسے جو سزا دیا وہ آپ سب لوگ جانتے ہو، میری رائے ہے کہ اسے آگ میں جلا دیا جائے، پھر تمام صحابہ اسی رائے پر متفق ہوگئے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے جلانے کا حکم دے دیا۔ [3]
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے احکام پر بصد شوق عمل بھی کرتے تھے، ایک مرتبہ کا فروں کا ایک وفد مدینہ آیا، اس وقت بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم مرتدین وباغیوں کی سرکوبی اور ان سے جنگ کے لیے مدینہ سے باہر گئے ہوئے تھے۔ کافروں کے دلوں میں کچھ شیطنت آسکتی تھی کہ اس وقت یہاں مسلمان تھوڑے اور کمزور ہیں ، پس ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھانپ لیا کہ اسلامی دارالحکومت اور مسلمانوں کے لیے یہ لوگ خطرہ ہیں ، اس لیے آپ نے شہر مدینہ پر پہرہ لگادیا، اور علی، زبیر، طلحہ، اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کو پہرے دار جماعتوں کا صدربنادیا، جب تک یہ لوگ ان کافروں سے مامون نہ ہوگئے اپنی ذمہ داری نبھاتے رہے۔ [4]
سیّدنا علی اور ابوبکر رضی اللہ عنہما کے درمیان کامل اعتماد،اخوت، ہمدردی وغمگساری ہی کا نتیجہ تھا کہ علی رضی اللہ عنہ سید اہل بیت اور نواسۂ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے باپ ہوتے ہوئے بھائیوں اور دوستوں کی طرح ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہدایا و تحائف قبول کرتے تھے، چنانچہ معرکۂ عین التمر میں ’’صہباء‘‘ نامی گرفتار شدہ لونڈی کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف سے بطور ہدیہ قبول کیا اور اس کے بطن سے آپ کو عمر اور رقیہ نام کی دواو لادیں ہوئیں ۔ [5]
میراث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ابوبکر صدیق اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہما کا معاملہ:
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ فاطمہ اور عباس رضی اللہ عنہما ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور رسول اللہ کی میراث کا
[1] تاریخ الیعقوبی (۲؍ ۱۳۲؍۱۳۸) بحوالہ الشیعہ وأہل البیت ص (۷۰)۔
[2] الشیعۃ و أھل البیت ص (۷۰) ۔
[3] المغنی مع الشرح الکبیر (۱۲؍۲۲۰) المختصر من کتاب الموافقۃ ص (۵۱)۔
[4] تاریخ طبری (۴؍۶۴) بحوالہ الشیعہ وأہل البیت ص (۷۱)۔
[5] الطبقات ؍ ابن سعد (۳؍۲۰) البدایۃ والنہایۃ (۷؍ ۳۳۱، ۳۳۳)۔