کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 554
۱۔ محمد بن الحنفیہ رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ میں نے اپنے باپ (علی رضی اللہ عنہ ) سے پوچھا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے افضل کون ہے؟ انھوں نے جواب دیا: ابوبکر رضی اللہ عنہ ۔ میں نے پوچھا: پھر کون؟ انھوں نے جواب دیا: عمر رضی اللہ عنہ ، چونکہ میں ڈر رہا تھا کہ اس کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ کا نام نہ لے لیں ، اس لیے میں نے کہا: پھر آپ ہیں ؟ ا نھوں نے کہا: میں مسلمانوں کا ایک فرد ہوں ۔[1] ۲: ایک مرتبہ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں تمھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے افضل ترین شخص کے متعلق نہ بتاؤں ؟ وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ پھر فرمایا: کیا ابوبکر ( رضی اللہ عنہ ) کے بعد اس امت کے سب سے افضل ترین فرد کی خبر نہ دوں ؟ وہ عمر ( رضی اللہ عنہ ) ہیں ۔[2] ۳: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر میں نے کسی سے ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما پر مجھے فوقیت دیتے ہوئے اور افضل کہتے ہوئے سنا تو اس پر تہمت کی حد جاری کروں گا۔[3] سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امامت میں علی رضی اللہ عنہ کا نماز پڑھنا اور ان کے ہدیے و تحفے قبول کرنا: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کو صدق دل سے تسلیم کرتے تھے۔ معاملات ومسائل میں ان کے شریک کار ہوتے، ان کے ہدایا وتخائف قبول فرماتے، شکایتوں کو ان کے پاس لیجاتے اور ان کے پیچھے نماز پڑھتے تھے، آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے سچی عقیدت رکھتے تھے، وہ جس کو ناپسند کرتے یہ بھی اسے ناپسند کرتے تھے۔[4] اس حقیقت کا اعتراف یعقوبی جیسے متعصب شیعہ مورخ نے بھی کیا ہے، جو کہ خلفائے راشدین کا دیگر اصحاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تابعین وتبع تابعین وغیرہ کا ایک بڑا حریف ہے، چنانچہ خلافت صدیقی کے تذکرے میں لکھتا ہے: ’’جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رومیوں سے محاذ آرائی کا ارادہ کیا تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں مشورہ کیا، لیکن وہ لوگ آگے پیچھے ہونے لگے، پھر انھوں نے علی رضی اللہ عنہ سے مشورہ لیا، آپ نے مشورہ دیا کہ جنگ لڑی جائے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا اگر میں یہ اقدام کردوں تو کامیابی کی امید ہے؟ علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: آپ کو خیر کی مبارکباد ہے، چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو جمع کیا، پھر خطبہ دیا اور سب کو حکم دیا کہ رومیوں سے جنگ لڑنے کے لیے تیاری کریں ۔‘‘ دوسری راویت میں ہے کہ آپ نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیسے اور کس وجہ سے آپ خیر کی مبارکباد دے رہے ہیں ؟ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اس مبارکباد کی اساس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشارت دیتے ہوئے سنا تھا، پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابو الحسن، اللہ آپ کو شادماں رکھے! تم نے مجھے یہ سنا کر بہت خوش کردیا۔ یعقوبی آگے لکھتا ہے:
[1] صحیح البخاری فضائل الصحابۃ (۳۶۷۱)۔ [2] مسند أحمد (۱؍ ۱۰۶،۱۱۰) احمد شاکر نے اس حدیث کی زیادہ تر اسناد کو صحیح کہا ہے۔ [3] فضائل الصحابۃ (۱؍ ۸۳) اس کی سند میں ضعف ہے۔ [4] الشیعۃ وأہل البیت/ احسان الٰہی ظہیر ص (۶۹)۔