کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 553
دوسرا باب: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ خلفائے راشدین کے عہد میں (۱)… عہد صدیقی میں سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر جنابِ علی رضی اللہ عنہ کی بیعت: ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت پر بیعت کرنے سے علی اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہما کے پیچھے رہ جانے کے سلسلے میں بہت سی غیر مستند روایات وارد ہیں ، صحیح سندوں سے جو روایات ثابت ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ علی اور زبیر رضی اللہ عنہما نے پہلے مرحلے ہی میں بیعت کرلی تھی، چنانچہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی تو انصار کے خطباء اٹھے … پھر سقیفۂ بنی ساعدہ میں بیعت خلافت کی کارروائی کو تفصیل سے ذکر کیا۔[1] پھر کہا کہ بالآخرنتیجہ یہ ہوا کہ لوگ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت پر بیعت کرکے وہاں سے نکلے اور جب ابوبکر رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں منبر پر تشریف لے گئے لوگوں پر نگاہ ڈالی، ان میں علی رضی اللہ عنہ نظر نہ آئے آپ نے علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں لوگوں سے دریافت کیا، چنانچہ کچھ انصاری صحابہ باہر گئے اور علی رضی اللہ عنہ کو بلا کر لے آئے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: اے اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے چچازاد بھائی، اور داماد! کیا تم مسلمانوں کی جماعت میں انتشار ڈالنا چاہتے ہو؟ انھوں نے جواب دیا: اے خلیفۂ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ ہمیں ملامت و شرمندہ نہ کریں ، پھر ان کے ہاتھوں پر بیعت کی، پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے زبیر بن عوام ( رضی اللہ عنہ ) کو نہیں دیکھا تو ان کے بارے میں بھی دریافت کیا، صحابہ گئے اور ان کو بھی لے کر آئے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: اے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پھوپھی کے بیٹے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حواری! کیا تم مسلمانوں کی جماعت میں انتشارڈالنا چاہتے ہو؟ انھوں نے بھی جواب دیا: اے خلیفۂ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ ہمیں ملامت وشرمندہ نہ کریں ، چنانچہ انھوں نے بھی بیعت کی۔ [2] اپنی ذات پر سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ترجیح وافضیلت خود علی رضی اللہ عنہ کی زبانی: اس سلسلے میں صراحت سے علی رضی اللہ عنہ سے متعدد آثار و روایات ثابت ہیں :
[1] مجمع الزوائد (۵؍ ۱۶۳) اس کی سند کے رجال صحیح کے رجال ہیں البدایۃ والنہایۃ (۵؍ ۲۸۱) حافظ ابن کثیر نے کہا اس کی سند صحیح اور محفوظ ہے۔ [2] المستدرک (۳؍ ۷۶) السنن الکبریٰ (۸؍۱۴۳) دو صحیح سندوں سے۔