کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 551
کے قول کی صداقت میں کسی شک کی بنا پر انھوں نے یہ بات کہی ہو، بلکہ جب قلم اور دوات لانے والے نے لانے میں تردد کیا اور اس سے پیچھے ہٹا، تو انھیں میں سے بعض لوگوں نے انکار وتو بیخ کے طور پریہ بات کہی، گویا ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ تم لکھنے کا سامان کیوں نہیں لاتے، کیا سمجھتے ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیر اختیاری بات نہیں کریں گے، ترد دنہ کرو، اور سامان کتابت حاضر کرو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر حال میں حق کہیں گے، بے معنی کلام نہیں کریں گے۔ [1]تو یہ واضح دلیل ہے کہ تمام صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہذیان گوئی کے وقوع کو بالکل ناممکن سمجھے تھے، اسی وجہ سے جنھوں نے یہ جملہ استعمال کیا لازمی انکار کے لیے استعمال کیا، تاکہ مخالف کے لیے کس طرح سے شک وشبہہ کی گنجائش نہ نکلے اور اسی مفہوم سے روافض کا دعویٰ بھی باطل ہوجاتاہے [2] ۶: روافض کا یہ دعویٰ کہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر ’’ تمھارے پاس اللہ کی کتاب ہے، ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معارضہ کیا، اور وصیت نامہ لکھوانے سے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل نہیں کی۔ اس بے بنیاد تہمت کا جواب یہ ہے کہ جنابِ عمر رضی اللہ عنہ اور آپ کے ہم خیال دیگر صحابہ کے سمجھ میں یہ بات آئی کہ وصیت نامہ تحریر کروانے کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم وجوبی نہیں ہے بلکہ مستقبل میں خلافت کے متعلق بہترین اقدام کی طرف رہنمائی مقصود ہے، اس لیے انھوں نے مخالفت کی، قاضی عیاض،[3] قرطبی،[4] نووی،[5] اور ابن حجر[6] وغیرہ اسی بات پر قائل ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے عمل سے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اسی اجتہاد کی تصدیق و توثیق بھی ہوئی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرض سے شفا پانے کے بعد پھر کچھ نہ لکھوایا، اگر اس کا لکھا نا، واجب ہوتا تو صحابہ کا اختلاف اس راستہ میں رکاوٹ نہ بنتا، کیونکہ کسی مخالف کی مخالفت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کی تبلیغ سے رک جانے والے نہ تھے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس واقعہ کو بھی عمر رضی اللہ عنہ کے ’’موافقات شرع‘‘میں شمارکیا جاتا ہے۔ [7] اسی طرح عمر رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ ’’ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے‘‘ درحقیقت اس شخص کی مخالفت ہے جو آپ سے حجت کررہا تھا نہ کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم کی مخالفت ہے، کیونکہ آپ کے الفاظ ہیں : ((عِنْدَکُمْ کِتَابُ اللّٰہِ ))گویا آپ کے مخاطب کئی لوگ تھے جو آپ کی رائے کی مخالفت کررہے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ گہری نظر اور درست رائے کے مالک تھے، چونکہ غور وفکر کے بعد آپ اس نتیجہ پر پہنچے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان فوری طوری سے واجب العمل کا متقاضی نہیں ہے اس لیے آپ نے ایک قوی اور شرعاً راجح مصلحت کو مقدم کرتے ہوئے
[1] المفہم (۴؍۵۵۹)۔ [2] الانتصار للصحب والآل ص: ۲۸۹)۔ [3] الشفاء (۲؍۸۸۷)۔ [4] المفہم (۲؍ ۵۵۹)۔ [5] شرح النووی (۱۱؍۹۱)۔ [6] فتح الباری (۱؍۲۰۹)۔ [7] فتح الباری (۱؍۲۰۹)۔