کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 55
کا دن اور ربیع الاوّل کا مہینہ تھا۔[1] جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دھوپ پڑنے لگی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی چادر سے سایہ کیا، تب آنے والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانا، ورنہ بہت سے لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ہی رسول اللہ سمجھ رہے تھے۔[2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہنچنے کا دن خوشی ومسرت کا دن تھا، ایسا دن مدینہ پر نہیں آیا تھا۔ لوگوں نے عید کی طرح اچھے اورخوبصورت کپڑے زیب تن کیے اور حقیقت میں یہ عید ہی کا دن تھا کیونکہ آج کے دن اسلام مکہ کے تنگ دامن سے نکل کر با برکت سرزمین مدینہ کے وسیع میدان میں داخل ہوا اور پھر وہاں سے پوری روئے زمین میں پھیلا۔ اللہ تعالیٰ نے اہل مدینہ کو جس شرف ومنزلت سے نوازا اور جو فضیلت ان کو بخشی اس کا انھیں بخوبی احساس تھا۔ ان کا شہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مہاجرین صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے پناہ گاہ قرار پایا، اور پھر نصرت اسلام کا مرکز بنا۔ اسی طرح تمام خصائص وعناصر کے ساتھ اسلامی نظام کا مرکز قرار پایا، اسی لیے مدینہ والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر خوشی ومسرت کے ساتھ: ((اللّٰه اکبر جاء رسول اللہ، اللّٰه اکبر جاء محمد)) کا نعرہ لگاتے ہوئے آپ کے استقبال میں نکل پڑے۔[3] اس عظیم استقبال کے بعد، جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں دیکھی گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر قیام پذیر ہوئے،[4] اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خارجہ بن زید الخزرجی الانصاری رضی اللہ عنہ کے گھر قیام فرمایا۔ (۴) سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ میدان جہاد میں مؤرخین اورسیرت نگاروں نے بیان کیا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر اور دیگر تمام معرکوں اور غزوات میں شریک رہے، کوئی غزوہ آپ سے چھوٹا نہیں ۔ غزوئہ احد میں جب لوگ شکست خوردہ ہو گئے تو اس وقت بھی آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ڈٹے رہے اور تبوک کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا عظیم پرچم جو سیاہ رنگ کا تھا، انھی کے حوالے کیا۔[5] علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’سیرت نگاروں کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے، کبھی پیچھے نہ ہٹے۔‘‘[6]
[1] الہجرۃ فی القرآن الکریم: ۳۵۱، البخاری: مناقب الانصار، باب الہجرۃ ۳۹۰۶۔ [2] ایضًا: ۳۵۲، ایضًا: ۳۹۰۶۔ [3] الہجرۃ فی القرآن الکریم: ۳۵۲، البدایۃ والنہایۃ: ۳/۱۹۷۔ [4] الہجرۃ فی القرآن الکریم: ۳۵۴۔ [5] الطبقات الکبری: ۱/۱۲۴، صفۃ الصفوۃ: ۱/۲۴۲۔ [6] أسد الغابۃ: ۳/ ۳۱۸۔