کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 549
ویقین ہوچکا تھا کہ اللہ تعالیٰ میری ہی خواہش اور عزم کے مطابق مسلمانوں کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر متفق کرے گا، جیسا کہ آپ نے فرمایا : ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے سوانہ ہی اللہ کسی کی خلافت کو تسلیم کرے گا، نہ مسلمان۔‘‘[1]
حدیث کا جو آخری ٹکڑا ہے کہ ((لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدِيْ)) میرے بعد گمراہ نہ ہوگے، شاہ ولی اللہ محد ث دہلوی رحمہ اللہ نے اس کی توجیہ میں فرمایا کہ اگر یہ اعترض کیا جائے کہ جس چیز کو لکھا جانا تھا اس کا تعلق دین سے نہ تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں یہ کیوں فرمایا: ((لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدِيْ)) یعنی میرے بعدہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ تو اس کاجواب یہ ہے کہ گمراہی کا لفظ مختلف مقامات پر مختلف معانی کے لیے مستعمل ہے، یہاں مراد یہ ہے کہ نظام مملکت چلانے میں غلطی نہ کرو گے، یعنی جزیرہ عرب سے مشرکین کو نکالنے، وفود کی خاطرو مدارات کرنے، اور لشکر اسامہ کو روانہ کرنے میں میری سیاست پر کار بندر ہوگئے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام اجمعین نے ایساہی کیا، یہاں ’’ضلالت‘‘ کا معنی دین سے گمراہی نہیں ہے۔ [2]
۳۔ حدیث کے آخر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ لوگوں نے شور وشغب کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ لکھنے نہ دیا۔[3] اس قول کی تشریح میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’اس وصیت کے لکھنے میں جو چیز حائل ہوئی وہ بڑی مصیبت تھی، لیکن ان کے حق میں مصیبت تھی جنھوں نے خلافت صدیقی کے بارے میں شک کیا اور یہ مسئلہ ان پر مشتبہ ہوگیا۔ اگر کوئی وصیت نامہ ہوتا تو یقینا اس کا شک زائل ہوجاتا اور مصیبت دور ہوجاتی، رہا وہ شخص جسے کامل یقین ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت برحق اور مکمل ہے الحمد اللہ ایسے شخص کے لیے کوئی مصیبت نہیں ۔‘‘[4]
اس مفہوم کی توضیح وتائید اس بات سے ہوتی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ بات اس وقت کہی جب خوارج وروافض جیسے اہل بدعت اور نفس پرستوں کا ظہور ہوگیا، ابن تیمیہ[5] اور ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی صراحت کی ہے۔ [6]
۴: مذکورہ حدیث کی روشنی میں بعض روافض کا یہ دعویٰ ہے کہ آپ اس وصیت نامہ میں علی رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لیے نامزد کرنا چاہتے تھے، لیکن یہ دعویٰ بھی باطل ہے۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس دعویٰ کے جواب میں فرماتے ہیں : ’’جسے یہ وہم ہو کہ یہ وصیت نامہ علی رضی اللہ عنہ کے خلافت کے بارے میں لکھا جانا تھا، وہ علمائے اہل سنت والجماعت، اور علمائے شیعہ دونوں کے عقیدہ کے مطابق بالا تفاق گمراہ اور جاہل ہے، اہل سنت تو اس پر متفق ہی ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفۂ اول، اور سب سے افضل تھے اور شیعان علی جو کہ علی رضی اللہ عنہ کو امامت کا اولین مستحق قرار دیتے
[1] منہاج السنۃ (۶؍۲۳۔ ۲۵)
[2] مختصر التحفۃ الاثنا عشریۃ ص (۲۵۱) ۔
[3] صحیح البخاری (۴۴۳۲)۔
[4] منہاج السنۃ ( ۶؍ ۲۵)۔
[5] منہاج السنۃ (۶؍۳۱۶) ۔
[6] فتح الباری ( ۱؍ ۲۰۹)۔