کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 548
اہل سنت سب متفق ہیں کہ پھر اپنی وفات تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہیں لکھوایا، پس یقینی طور پر ہمیں ماننا پڑے گا کہ جس چیزکو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھوانا چاہتے تھے، وہ کوئی ایسی چیز نہ تھی جس کی تبلیغ کے لیے آپ مامور رہے ہوں ، کیونکہ قرآن کے بیان کے مطابق اللہ نے اس واقعہ سے قبل حجۃ الوداع کے موقع پر ہی دین کے مکمل ہونے کا اعلان کردیا تھا:
﴿ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾ (المائدۃ :۳)
’’آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کر لیا۔‘‘
امام بن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ وصیت نامہ لکھوانے کا حکم الٰہی ہوتا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے لکھواتے یا اسی وقت بتاتے، اگر ایسی بات ہوتی تو آپ اس کی بجاآوری سے ہر گز باز نہ آتے، آپ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے متعلق متوقع نزاع کے ازالہ کی مصلحت سے کچھ لکھوانا چاہاتھا، لیکن جب آپ کو انداز ہ ہوگیا کہ اختلاف ہونا ہی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے۔‘‘[1]
ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں :
’’ اس تحریر یا وصیت نامہ کا واقعہ جیسے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لکھوانا چاہتے تھے، بڑی وضاحت سے صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے یوں مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرض الموت میں فرمایا: ((اُدْعِی لِيْ أَ بَاکِ وَأَخَاکِ حَتَّی اَکْتُبَ کِتَابًا، فَإِنِّيْ أَخَافُ أَنْ یَتَمَنَّی مُتَمَنٍّوَیَقُوْلَ قَائِلٌ : أَ نَا أَوْلَی، وَیَابَی اللّٰہُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ إِلَّا أَبَابَکْرٍ)) ’’اپنے باپ اور بھائی کو میرے پاس بلاؤ تاکہ میں وصیت لکھ دوں ، مجھے ڈر ہے کہ حریص اس کی آرزو کریں گے اور کچھ کہنے والے یہ بھی کہیں گے کہ خلافت کا حق دار میں زیادہ ہوں ، مگر ابو بکر کی خلافت کے سوانہ ہی اللہ کسی کی خلافت کو تسلیم کرے گا اور نہ مسلمان۔‘‘[2]
اس کے بعد چند روایات لکھتے ہیں اور فرماتے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے جس رائے کا اظہار کیا اس کے تئیں وصیت لکھوانے کا عزم کرلیا تھا، لیکن جب آپ نے دیکھا کہ بعض لوگوں کے ذہنوں میں ابو بکر کی خلافت کے متعلق شک حائل ہوگیا ہے ؟ تو سوچا کہ وصیت نامہ اس شک کو زائل نہیں کرسکتا، لہٰذا وصیت نامہ لکھوانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ مزید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا بھی علم
[1] منہاج السنۃ (۶؍۳۱۶)
[2] صحیح بخاری (۵۶۶۶، ۷۲۱۷) و صحیح مسلم (۲۳۸۷)۔