کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 547
روافض کا یہ اعتراض یکسر باطل ہے، کیونکہ اس کا لازمی مفہوم یہ ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی بعض باتوں کی تبلیغ نہیں کی جس سے امت گمراہی سے محفوظ رہ سکتی تھی اور اپنے پاس محض صحابہ کے اختلاف کو دیکھ کر اللہ کی شریعت کو چھپا لیا اور اسی پر موت ہوگئی حالانکہ یہ مفہوم قرآن مجید کی اس آیت کریمہ کے صریح مخالف ہے: ﴿ يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّـهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ ﴾ (المائدہ : ۶۷) ’’اے رسول! پہنچا دے جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اگر تو نے نہ کیا تو تو نے اس کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ تجھے لوگوں سے بچائے گا۔ بے شک اللہ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس خیانت سے بالکل پاک تھے، اور تزکیۂ الٰہی ﴿ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴾ (التوبۃ :۱۲۸) [1] کے بموجب ایسی تہمتوں سے بالکل بری تھے، اس لیے اللہ نے آپ کے قلبی رجحان کو یوں تعبیرکیا کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی امت پر حریص ہیں ، یعنی امت کی ہدایت اور اس کے دنیوی واخروی نفع رسانی کے لیے خواہش مند ہیں ۔[2] تمام مسلمانوں کو اس بات پر یقین ہے، اور جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان کی رمق ہوگی اسے بھی شک نہ ہوگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے تمام ترپیغا مات کو پہنچادیا، اوروہ اپنی امت کی خیر خواہی کے ہمیشہ خواہش مند تھے جیسے کہ آپ کی مجاہدانہ زندگی، قربانیاں اور ترغیب وتشجیع کے اقوال و واقعات اس پر دلالت کرتے ہیں ، تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دیانت داری اور خیرخواہی ہر خاص وعام کے نزدیک مسلّم ہے تو ہمیں اس با ت پر یقین کرنا چاہیے کہ اگر وہ وصیت نامہ اتنا اہم ہوتا جس سے پوری امت گمراہی سے بچ جاتی اور قیامت تک کے لیے اس میں کوئی اختلاف واقع نہ ہوتا، تو عقلاً اور نصًا کسی اعتبارسے یہ بات ہر گز سمجھ میں نہیں آتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنی زندگی کے اس تنگ وقت تک کے لیے موخر کیے رہتے اور اگر موخر بھی کیا تھا تو محض چند صحابہ کے اختلاف کی وجہ سے اسے بیان نہ کرتے۔[3] ایسا کبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے فرمان کی تبلیغ چھوڑدیں اور اگر بالفرض یہ تسلیم کرلیا جائے کہ کسی مصلحت کی وجہ سے آپ نے اس وقت نہیں لکھوایا، تو بعدمیں اسے لکھوانے سے کون سی چیز مانع رہی کیونکہ اس کے بعد مزید چند دنوں یعنی دو شنبہ تک آپ باحیات رہے، جیسا کہ صحیحین وغیرہ میں انس رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔[4] جب کہ بالاتفاق وصیت نامہ لکھوانے کا واقعہ جمعرات کا ہے۔[5] اور اس پر بھی روافض اور
[1] ترجمہ: تمھارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں ، جو تمھاری جنس سے ہیں جن کو تمھاری مضرت کی بات بہت گراں گزر تی ہے، جو تمھاری منفعت کے بڑی خواہش مند رہتے ہیں ۔ ایمان والوں کے ساتھ بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں ۔ [2] تفسیر ابن کثیر (۲؍۴۰۴)۔ [3] مختصر تحفۃالاثنا عشریۃ (۲۵۱)، الإنتصار للصحب والآل (۲۲۸، ۲۲۹) ۔ [4] صحیح البخاری (۴۴۴۸)، صحیح مسلم (۴۱۹)۔ [5] الإنتصار للصحب والآل (۳۲۹)۔