کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 546
صحابہ کو تین چیزوں کی وصیت کی، فرمایا: (( أَخْرِجُوا الْمُشْرِکِیْنَ مِنْ جَزِیْرَۃِ الْعَرَبِ وَأَجِیْزُوْ الْوَفَدَ بِنَحْوِ مَاکُنْتُ أُجِیْزُہُمْ۔)) ’’مشرکین کو جزیرہ ٔ عرب سے نکال دو، وفد ( جو قبائل کے تمھارے پاس آئیں ) ان کی اس طرح خاطر کیا کرنا جس طرح میں کرتا آیا ہوں ‘‘ اور تیسری بات (ابن عباس نے یا سعید نے ) بیان نہیں کی، یا ( سعید بن جیر یا سلیمان نے کہا ) میں تیسری بات بھول گیا۔[1] اس حدیث اور اس کے مضمون پر مشتمل دیگر احادیث میں صحابہ کرام کے اختلاف اور شورو شغب کے متعلق جو کچھ مذکور ہے اور جسے روافض اپنے طعن وتشنیع کا ہدف بناتے ہیں درحقیقت اس سے ان پر کوئی طعن وتشنیع لازم نہیں آتا، بلکہ ان کے تمام تر اعتراضات یکسر فاسد وباطل ہیں ، متقدمین علماء نے اس سے متعلق ان کے چند اہم اعتراضات کی تردید کی ہے اور ان کے شبہات کا ازالہ کیا ہے۔ ۱: بلاشبہ صحابہ کے درمیان اختلاف رہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سمجھنے اور اس کا معنی متعین کرنے میں ان کی آراء مختلف رہیں ۔ حکم نبوی سے سرتابی کی وجہ سے اختلاف کبھی نہ رہا۔ امام قرطبی فرماتے ہیں کہ صحابہ میں اختلاف کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے اجتہاد کیا اور نیک نیتی سے اجتہاد کیا، اس اجتہاد میں دونوں فریق حق پر رہے یا ایک درست رائے تک پہنچے اور دوسرا اس سے قاصر رہا ایسی صورت میں درست رائے تک جس کی رسائی نہ ہوسکی وہ گناہ گار نہ ہوگا بلکہ وہ بھی نیک نیتی سے اجتہاد کی بنا پر ثواب کا مستحق ہوگا۔ آگے فرماتے ہیں : وصیت نامہ کے بارے میں اختلاف ہوجانے پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کی کوئی سرزنش نہیں کی اور نہ ہی برا بھلا کہا، بلکہ سب سے کہا: ((دَعُوْنِيْ فَالَّذِيْ أَنَا فِیْہِ خَیْرٌ مِمَّا تَدْعُوْنَنِيْ إلَیْہِ)) ’’( یہاں شور وغل نہ کرو) جس کام میں مشغول ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کے لیے تم کہہ رہے ہو۔‘‘ یہ واقعہ ایسے ہی ہے جیسے کہ غزوۂ احزاب کے موقع پر پیش آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے کہا: ((لَایُصَلِّیَنَّ أَحَدٌ العَصْرَ إِلَّا فِيْ بَنِيْ قُرَیْظَۃَ)) [2] ’’تم لوگ بنوقریظہ کے پاس پہنچ کر ہی عصر کی نماز پڑھو۔‘‘ چنانچہ ان میں سے کچھ لوگوں نے بنوقریظہ پہنچنے سے پہلے ہی اس خوف سے نماز پڑھ لی کہ نماز کا وقت نہ ختم ہوجائے۔ اور کچھ لوگوں نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں وہاں پہنچ کر ہی نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے اس لیے ہم وہیں پڑھیں گے۔ لیکن اس اختلاف کے باوجود کسی نے کسی کو برا بھلا نہیں کہا۔[3] ۲: روافض کا ایک اعتراض یہ ہے کہ اس موقع پر صحابہ کا آپس میں اختلاف اور اس کے نتیجہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصیت نامے کا وجود میں نہ آنا۔ دو ایسی چیزیں تھیں جن کی وجہ سے پوری امت مسلمہ فساد کا شکار ہوئی اور وہ معصوم نہ رہ سکی۔
[1] صحیح البخاری، حدیث نمبر(۴۴۳۱) ۔ [2] صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۴۱۱۹)۔ [3] المفہم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم (۴؍ ۵۵۹)۔