کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 545
دیکھنے لگا کہ شاید میت کو موت کے وقت بسا اوقات جونجاست وغیرہ نکل آتی ہے، آپ کو بھی ہو، لیکن میں نے کچھ نہ دیکھا، آپ زندگی اور موت دونوں حالتوں میں پاک صاف تھے[1] اور فرمایا: اے پاک ذات! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں ، آپ زندگی اور موت دونوں حالتوں میں پاکیزہ رہے۔[2] آپ ان لوگوں میں سے ایک تھے جو جسد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کے لیے آپ کی قبر میں اترے، اس میں شرکت کرنے والوں میں آپ کے علاوہ فضل بن عباس، قثم بن عباس اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام شقران رضی اللہ عنہم بھی تھے۔[3]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرض الموت میں جو وصیت نامہ لکھوانے کا ارادہ کیا تھا اس کی حقیقت:
سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب ہوا تو گھرمیں بہت سے صحابہ کرام موجود تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((ہَلُمُّوْا أَکْتُبُ لَکُمْ کِتَاباً لَا تَضِلُّوْا بَعْدَہُ)) ’’لاؤ میں تمھارے لیے ایک دستاویز لکھ دوں ، اگر تم اس پر چلتے رہے تو پھر تم گمراہ نہ ہوسکو گے۔‘‘ اس پر بعض لوگوں نے کہا : کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بیماری کی سختی ہو رہی ہے، تمھارے پاس قرآن موجود ہے۔
ہمارے لیے تو اللہ کی کتاب بس کافی ہے پھر گھروالوں میں جھگڑا ہونے لگا، بعض نے تو یہ کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی چیز لکھنے کی دے دوکہ اس پر آپ ہدایت لکھوادیں اور تم اس کے بعد گمراہ نہ ہوسکو، بعض لوگوں نے اس کے خلاف دوسری رائے پر اصرار کیا، جب شورو غل اور نزاع زیادہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قُوْمُوْا‘‘ یہاں سے جاؤ۔ عبید اللہ نے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما ( اس کے بعد) کہتے تھے: مصیبت سب سے بڑی یہ تھی کہ لوگوں نے اختلاف اور شور کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ ہدایت نہیں لکھنے دی۔ [4]
دوسری روایت میں یوں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جمعرات کے دن کا ذکر کیا اور فرمایا: ’’معلوم بھی ہے جمعرات کے دن کیا ہوا تھا‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں تیزی پیدا ہوئی تھی، اس وقت آپ نے فرمایا: ((اِئْتُونِيْ بِکَتِفٍ وَدَوَاۃٍ اَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابًا لَنْ تَضِلُّوْا بَعَدَہُ أَبَداً)) ’’شانہ و دوات لاؤ میں تمھارے لیے وصیت نامہ لکھ دوں کہ تم اس پر چلو گے تو اس کے بعد پھر تم کبھی گمراہ نہ ہوگے‘‘ لیکن یہ سن کروہاں اختلاف پیدا ہوگیا حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نزاع نہ ہونا چاہیے تھا۔ بعض لوگوں نے کہا کہیں آ پ صلی اللہ علیہ وسلم شدت مرض کی وجہ سے بے معنی کلام تو نہیں فرما رہے ہیں ؟ بات سمجھنے کی غرض سے آپ سے دوبارہ استفسار کرلو ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ پوچھنے لگے، آپ نے فرمایا: ((دَعُوْنِيْ فَالَّذِيْ أَنَا فِیْہِ خیرْ ٌمِمَّا تَدْعُوْنَنِيْ إِلَیْہِ)) ’’یہاں شورو غل نہ کرو، جس کام میں مشغول ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کے لیے تم کہہ رہے ہو‘‘ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
[1] سنن ابن ماجہ (۱؍۳۶۲) حدیث نمبر (۱۴۶۷) امام البانی نے احکام الجنائز ص (۵۰) پر اسے صحیح کہا ہے۔
[2] السیرۃ النبویۃ ؍ ابن ہشام (۴ ؍۳۲۱)۔
[3] السیرۃ النبویۃ ؍ ابن ہشام (۴ ؍ ۳۲۱)۔
[4] صحیح البخاری، حدیث نمبر ( ۴۴۳۲) ۔