کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 543
ومحبت رسول کی دفاع میں ’’رسول اللہ‘‘ کا لفظ مٹانے کو تیار نہ تھے۔ [1]
غزوۂ خیبر میں :
خیبر ایک یہودی نوآبادیاتی کا لونی تھی جس کے متعدد مضبوط قلعے تھے اور یہ یہودیوں کا جنگی مورچہ تھا، یہی نہیں بلکہ جزیرۃ العرب میں جو ان کی چھاؤنیاں تھیں ان میں آخری چھاؤنی یہی تھی، یہودی، مسلمانوں کے خلاف مدینہ کے یہودیوں اور دوسرے علاقے کے د شمنوں سے مل کر سازش کررہے تھے کہ مدینہ پر حملہ کریں ، رسول اللہ کی خواہش تھی کہ ان یہودیوں کی آئے دن کی سازشوں اور حملہ کے خطرات سے ہمیشہ کے لیے مطمئن ہوجائیں ، خیبر، مدینہ کے شمال مشرق میں ستر میل(۷۰) کی مسافت پرہے۔[2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی فوج لے کر خیبر کی طرف روانہ ہوئے، مجاہدین کی کل تعداد چودہ سو، (۱۴۰۰) تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے قلعوں پر حملہ کی ٹھان لی اور ایک ایک قلعہ فتح ہوتا رہا، اس وقت علی رضی اللہ عنہ آ شوب چشم میں مبتلا تھے۔[3] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لَأُعْطِیَنَّ ہٰذِہِ الرَّاْ یَۃَ غَدًا رَجُـلًا یَفْتَحُ اللّٰہُ عَلَی یَدَیْہِ، یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ، وَیُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ۔)) کل جھنڈا اسی شخص کے ہاتھ میں ہوگا جو اللہ کے رسول سے محبت کرتا ہے، اور اللہ اور اس کا رسول اسے پسندکرتا ہے، چنانچہ صحابہ نے اس فکر وتمنا میں رات بڑی بے چینی سے گزاری کہ معلوم نہیں کون اس کا حق دار ہوگا، صبح ہوئی سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور ہر ایک اس سرفرازی کے لیے منتظر رہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((أَیْنَ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ۔))’’علی بن ابی طالب کہاں ہیں ؟‘‘ صحابہ نے بتایا کہ ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے، لیکن انھیں بلایا گیا اور وہ آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دونوں آنکھوں میں لعاب دہن لگادیا اور ان کے لیے دعا فرمائی، جس سے ان کی تکلیف ایسے دُو رہوگئی گویا کبھی تھی ہی نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاتھ میں عَلَمْ دیا۔ علی رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: کیا میں اس وقت تک ان سے قتال کروں جب تک کہ وہ ہماری طرح مسلمان نہ ہو جائیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اُنْفُذْ عَلَی رِسْلِکَ حَتَّی تَنْزِلَ بِسَاحَتِہِمْ، ثُمَّ ادْعُہُمْ إِلَی الإِسْلَامِ، وَأَخْبِرْہُمْ بِمَایَجِبُ عَلَیْہِمْ مِنْ حَقِّ اللّٰہِ فِیْہِ، فَوَ اللّٰہِ لِأَنْ یَہْدِيَ اللّٰہُ بِکَ رَجُلًا وَاحِدًا خَیْرٌ لَّکَ مِنْ أَنْ یَّکُوْنَ لَکَ حُمُرُ النَّعَمِ۔))[4]
’’تم اپنی مہم پر اطمینان سے گامزن ہوجاؤ، اور ان کے مقابلہ میں اتر کر انھیں اسلام کی دعوت دو اور انھیں بتاؤ کہ اللہ کا ان پر کیا حق ہے واللہ اگر تمھارے ہاتھ پر ایک آدمی بھی ہدایت پاجائے تو تمھارے
[1] الانتصار للصحب والآل؍ الرحیلی ص : (۲۶۲تا۲۷۴)۔
[2] المرتضٰی للندوی (۵۲)۔
[3] المرتضیٰ للندوی ص (۵۲)، اردو ایڈیشن(۷۸،۷۹) ۔
[4] صحیح مسلم، حدیث نمبر (۲۴۰۶)۔