کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 542
جس میں عقیدہ کی صداقت، عمل کی درستگی اور جہاد فی سبیل اللہ کی تصویر جھلک رہی ہے۔ [1]
جب بنو قریظہ کے بارے میں سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ ہوا کہ ان کے جنگ جو قتل کر دیے جائیں ، عورتیں اور بچے قید کرلیے جائیں ، اور ان کے مال وجائداد کو تقسیم کردیا جائے [2] تو جنگجوؤں کو قتل کرنے میں جنابِ علی اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہما پیش پیش تھے۔ [3]
صلح حدیبیہ اور بیعت رضوان میں :
غزوۂ حدیبیہ میں صلح کی بات آنے سے پہلے چند غلام مکہ سے چل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آملے، جب ان کے مالکوں کو اس کی اطلاع ملی تو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خط لکھا کہ ان غلاموں کو ہمارے حوالے کردیں ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے انکار کردیا اور کہا: ((یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ لَتَنْتَہَنَّ أَوْ لَیَبْعَثَنَّ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ مَن یَّضْرِبُ رِقَا بَکُمْ بِالسَّیْفِ عَلَی الدَّیْنِ قَدِ امْتَحَنَ اللّٰہُ قَلْبَہُ عَلَی الْاِیْمَانِ)) اے قریش کے لوگو! تم اپنی حرکت سے باز آجاؤ ورنہ اس بات کے لیے تیار رہو کہ اللہ تعالیٰ تم پر ضرور باضرور ایسے شخص کو مسلط کرے گا جو صرف اسلام کی خاطر تلوار سے تمھاری گردنیں مارے گا، اللہ نے اس کے دل کی ایمانی صداقت کو اچھی طرح آزمالیا ہے۔ صحابہ کرام نے حسرت سے پوچھا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون ہے؟ دراصل ان میں ہر ایک یہی امید لگائے تھا کہ وہی اس عظیم ترین بشارت نبوی سے فائز ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہُوَ خَاصِفُ النَّعْلِ‘‘ وہ جو کہ جوتے میں پیوند لگانے والے ہیں ، آپ کی مرادعلی رضی اللہ عنہ تھے، جن کو آپ نے اپنا جوتا پیوند کاری کے لیے دیا تھا۔ [4]
جب مسلمانوں اور مشرکین قریش کے درمیان صلح پر اتفاق ہوا تو صلح نامہ تحریر کرنے کی سعادت علی رضی اللہ عنہ کو ملی، چنانچہ آپ نے جب صلح نامہ لکھتے ہوئے ’’محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لکھا، تو مشرکوں نے اعتراض کیا کہ محمد کے ساتھ ’’رسول اللہ‘‘ نہ لکھا جائے، کیونکہ اگر ہم آپ کو رسول اللہ مانتے تو آپ سے جنگ نہ کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’اُمْحہ‘‘ اسے مٹا دو۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہامیں نہیں مٹا سکتا ہوں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے اسے مٹا دیا، اور اس بات پر مصالحت ہوئی کہ آئندہ سال آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے ساتھیوں کے ساتھ تین دنوں کے لیے مکہ میں داخل ہوسکتے ہیں بشرطیکہ ان کی تلواریں میان میں ہوں ۔[5] صاف ظاہر ہے کہ علی رضی اللہ عنہ محض عظمت
[1] صحیح البخاری حدیث نمبر (۱۴۲۱)، السیرۃ النبویۃ؍ ابن ہشام (۳؍۲۶۳)۔
[2] الخلیفتان عثمان وعلی بین السنۃ والشیعۃ؍ أنور عین ص (۷۸)۔
[3] السیرۃ ؍ابن ہشام (۳؍۲۶۳) صحیح البخاری، حدیث نمبر (۴۱۲)۔ أمتاع الأسماع؍ المقریزی (۱؍ ۲۴۷)۔
[4] مرویا ت غزوۃ الحدیبیۃ؍ حافظ الحکمی۔ حدیث اپنی مجموعی اسانید کے ساتھ صحیح ہے دیکھئے: خلافۃ علی بن أبی طالب؍عبدالحمید علی ناصر ، ص( ۳۰)
[5] صحیح مسلم(۳؍۱۴۰۹) خصائص علي ؍ النسائی، تحقیق أحمد البلوشی ص: (۲۰۳) ۔