کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 541
پھر عمرو بن عبدود کے مارے جانے سے عکرمہ شکست کھا کر اور اپنا نیزہ چھوڑ کر بھاگ گیا، اس کے بارے میں حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے یہ اشعار کہے :
فَرَّ وَ أَلْقَیٰ لَنَا رُمْحَہُ لَعَلَّکَ عِکْرَمُ لَمْ تَفْعَلِ
’’ہمارے واسطے اپنا نیزہ ڈال کر وہ (عکرمہ) فرار ہوگیا، اے عکرمہ ! شاید تو نے ایسانہیں کیا ہوگا۔‘‘
وَوَلَّیْتَ تَعْدُوکَعَدْوِالظَّلِیْمِ مَا إِنْ یَحُوْرُ عَنِ الْمِعْدِلِ
’’اور تو پیٹھ دکھا کر اس طرح بھاگا جیسے نرشترمرغ بھاگتا ہے اور اپنے نشانہ سے مڑتا نہیں ۔‘‘
وَلَمْ تَلْوِ ظَہْرَکَ مُسْتَانِساً کَأَنَّ قَفَاکَ قَفَا فُرْعُلِ
’’تو شوق سے اس طرح بھاگتا رہا کبھی پیٹھ نہیں پھیری گویا تیری گدی بجّو کی گدی ہے جو مڑتی نہیں ۔‘‘
بہرحال جب عمرو بن عبدود قتل کردیا گیا تو مشرکوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ لوایا کہ ہم عمرو کی لاش کو دس ہزار کے بدلے خریدنا چاہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’انہیں اس کی لاش دے دو، وہ لاش خبیث ہے اور اس کا معاوضہ بھی خبیث وناپاک ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کچھ بھی نہیں لیا، حالانکہ اس وقت مسلمان سخت ترین معاشی تنگی سے گزر رہے تھے، لیکن چونکہ حلال حلال ہے اور حرام حرام ہے، اس لیے اسے ہاتھ نہ لگایا، یہ ہے حلال اور حرام کی تمیز کا اسلامی معیار، پس تقویٰ سے لبریز اس زندگی کا آج کے ان مسلمانوں کی زندگی سے کیا موازنہ کیا جاسکتا ہے جو سود خوری اور دیگر حرام خوری کے لیے مختلف حیلے اور بہانے ایجاد کرتے رہتے ہیں ؟ [1]
غزوۂ بنو قریظہ میں :
غزوۂ بنو قریظہ میں علی رضی اللہ عنہ بطور مقدمۃ الجیش اس وقت تک علمبردار رسول رہے جب تک کہ بنو قریظہ کے بارے میں سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنا فیصلہ نہیں سنایا۔ ابن ہشام اس کی تفصیل یوں بیان کرتے ہیں کہ مسلمان بنو قریظہ کا محاصرہ کیے ہوئے تھے، علی رضی اللہ عنہ نے پکار کر کہا: اے ایمان کے لشکر! علی اور زبیر بن عوام آگے بڑھے اور علی نے فرمایا: اللہ کی قسم ! میں وہ مزہ چکھنا چاہتا ہوں جو حمزہ رضی اللہ عنہ نے چکھا تھا، یا پھر اس قلعہ کو فتح کر کے رہوں گا۔ اب بنو قریظہ نے کہا : اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! ہم سعد بن معاذ کے حکم پر اترتے ہیں ۔ [2]
اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس متقی اور صاف دل انسان جسے اعلائے کلمۃ اللہ کے راستے میں بہادری دکھانے اور قربان ہوجانے کی توفیق دی تھی، ( یعنی علی رضی اللہ عنہ کی) آواز سے دشمنان دین وعقیدہ کے دلوں میں رعب اور دہشت طاری کردی، اسی طرح اپنے گروہ سے علی رضی اللہ عنہ کا خطاب بھی قابل غور ہے کہ آپ نے اسے اے ایمان کے لشکرجیسے محبوب ترین نام سے پکارا، جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مخاطب کیا کرتا ہے، درحقیقت یہ ایمانی نداء تھی
[1] البدایۃ والنہایۃ (۴؍۱۰۶)۔
[2] معین السیرۃ ؍ الشامی ص (۹۴)۔